اقوام متحدہ اور حکومتِ پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں اُن بچوں کی تعداد جو اسکول میں داخل نہیں 67 لاکھ ہے، جن میں لڑکیوں کی شرح لگ بھگ 56 فیصد ہے۔
اسلام آباد —
دنیا بھر میں 11 اکتوبر کو لڑکیوں کا عالمی دن منایا گیا جس کے لیے رواں سال کا موضوع ’’لڑکیوں کی تعلیم کے لیے نئی راہیں‘‘ تلاش کرنا تھا۔
پاکستان میں اس مناسبت سے اطفال اور تعلیم و ثقافت سے متعلق اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں کے زیرِ اہتمام وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ایک خصوصی تقریب بھی منعقد ہوئی۔
اقوام متحدہ کے اداراہ برائے تعلیم، سائنس اور ثقافت (یونیسکو) اور حکومتِ پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں اُن بچوں کی تعداد جو اسکول میں داخل نہیں 67 لاکھ ہے، جن میں لڑکیوں کی شرح لگ بھگ 56 فیصد ہے۔
وفاقی وزیرِ مملکت برائے تعلیم بلیغ الرحمٰن نے تقریب سے خطاب میں کہا کہ پاکستان کا شمار دنیا کے اُن ممالک میں ہوتا ہے جہاں اسکولوں میں داخلے کے بعد پرائمری تک تعلیم مکمل کرنے سے قبل پڑھائی چھوڑ دینے والی لڑکیوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔
وزیرِ مملکت نے کہا کہ اس صورت حال کی بڑی وجہ اسکولوں میں مناسب سہولتوں کا فقدان ہے۔ تاہم اُنھوں نے بتایا کہ تعلیم اور خاص طور پر لڑکیوں کی خواندگی میں اضافہ حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔
’’تعلیم کا مسئلہ اس وقت بڑی گھمبیر صورت حال اخیار کر چکا ہے ... ایک تو ویسے ہی تعلیم کی شرح کم ہے اور اس میں بچیاں خاص کر بہت پیچھے ہیں۔ اسکول میں داخل ہونے والی لڑکیوں کی شرح 63 فیصد جب کہ لڑکوں کی 73 فیصد ہے۔‘‘
وزیرِ مملکت کا کہنا تھا کہ لڑکوں اور لڑکیوں سے متعلق شرح میں موجود اس فرق کو مٹانے کے لیے قومی سطح پر منصوبہ بندی کر لی گئی ہے۔
’’ہم نے تمام صوبوں کے ساتھ مل کر جو نیشنل پلان آف ایکشن بنایا ہے اس میں موجودہ 10 فیصد فرق کو اگلے تین سال میں 5 فیصد تک لایا جائے گا اور اس کے بعد انشا اللہ جلد ہی ختم کر دیا جائے گا۔‘‘
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسیف) کے تعلیم سے متعلق پروگرام کی افسر صدف ذوالفقار علی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان میں لڑکیوں کو تعلیم کے حصول میں معاشرتی دباؤ سمیت مختلف مسائل کا سامنا ہے۔
’’ہمیں لڑکیوں کی تعلیم کو خرچ نہیں بلکہ سرمایہ کاری سمجھنی چاہیئے ... ہمارا یہ بات سمجھنا انتہائی ضروری ہے کہ آج بچیوں کی تعلیم میں سرمایہ کاری میں کل کے کتنے فوائد ہیں۔‘‘
اسلام آباد میں لڑکیوں کے ایک اسکول کی معلمہ صبا فیصل نے اس موقف کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ ایک لڑکی کو تعلیم سے آراستہ کرنا اس بات کی یقین دہانی ہے کہ اس کا خاندان آئندہ تعلیم یافتہ ہوگا۔
’’اس ہی چیز کے لیے ہم آج یہ عہد کرتے ہیں کہ آج کے بعد ہم کبھی بھی یہ نہیں سمجھیں گے کہ لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کا حق نہیں ہے بلکہ میرے خیال میں وہ لڑکوں سے زیادہ تعلیم کی حق دار ہیں۔‘‘
صبا فیصل کا کہنا تھا کہ وہ خود اور اُن جیسی دیگر خواتین اساتذہ اس بات کی زندہ مثالیں ہیں کہ پڑھی لکھی خواتین تعلیم کے سلسلے کو آگے بڑھا رہی ہیں۔
پاکستان میں اس مناسبت سے اطفال اور تعلیم و ثقافت سے متعلق اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں کے زیرِ اہتمام وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ایک خصوصی تقریب بھی منعقد ہوئی۔
اقوام متحدہ کے اداراہ برائے تعلیم، سائنس اور ثقافت (یونیسکو) اور حکومتِ پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں اُن بچوں کی تعداد جو اسکول میں داخل نہیں 67 لاکھ ہے، جن میں لڑکیوں کی شرح لگ بھگ 56 فیصد ہے۔
وفاقی وزیرِ مملکت برائے تعلیم بلیغ الرحمٰن نے تقریب سے خطاب میں کہا کہ پاکستان کا شمار دنیا کے اُن ممالک میں ہوتا ہے جہاں اسکولوں میں داخلے کے بعد پرائمری تک تعلیم مکمل کرنے سے قبل پڑھائی چھوڑ دینے والی لڑکیوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔
وزیرِ مملکت نے کہا کہ اس صورت حال کی بڑی وجہ اسکولوں میں مناسب سہولتوں کا فقدان ہے۔ تاہم اُنھوں نے بتایا کہ تعلیم اور خاص طور پر لڑکیوں کی خواندگی میں اضافہ حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔
’’تعلیم کا مسئلہ اس وقت بڑی گھمبیر صورت حال اخیار کر چکا ہے ... ایک تو ویسے ہی تعلیم کی شرح کم ہے اور اس میں بچیاں خاص کر بہت پیچھے ہیں۔ اسکول میں داخل ہونے والی لڑکیوں کی شرح 63 فیصد جب کہ لڑکوں کی 73 فیصد ہے۔‘‘
وزیرِ مملکت کا کہنا تھا کہ لڑکوں اور لڑکیوں سے متعلق شرح میں موجود اس فرق کو مٹانے کے لیے قومی سطح پر منصوبہ بندی کر لی گئی ہے۔
’’ہم نے تمام صوبوں کے ساتھ مل کر جو نیشنل پلان آف ایکشن بنایا ہے اس میں موجودہ 10 فیصد فرق کو اگلے تین سال میں 5 فیصد تک لایا جائے گا اور اس کے بعد انشا اللہ جلد ہی ختم کر دیا جائے گا۔‘‘
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسیف) کے تعلیم سے متعلق پروگرام کی افسر صدف ذوالفقار علی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان میں لڑکیوں کو تعلیم کے حصول میں معاشرتی دباؤ سمیت مختلف مسائل کا سامنا ہے۔
’’ہمیں لڑکیوں کی تعلیم کو خرچ نہیں بلکہ سرمایہ کاری سمجھنی چاہیئے ... ہمارا یہ بات سمجھنا انتہائی ضروری ہے کہ آج بچیوں کی تعلیم میں سرمایہ کاری میں کل کے کتنے فوائد ہیں۔‘‘
اسلام آباد میں لڑکیوں کے ایک اسکول کی معلمہ صبا فیصل نے اس موقف کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ ایک لڑکی کو تعلیم سے آراستہ کرنا اس بات کی یقین دہانی ہے کہ اس کا خاندان آئندہ تعلیم یافتہ ہوگا۔
’’اس ہی چیز کے لیے ہم آج یہ عہد کرتے ہیں کہ آج کے بعد ہم کبھی بھی یہ نہیں سمجھیں گے کہ لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کا حق نہیں ہے بلکہ میرے خیال میں وہ لڑکوں سے زیادہ تعلیم کی حق دار ہیں۔‘‘
صبا فیصل کا کہنا تھا کہ وہ خود اور اُن جیسی دیگر خواتین اساتذہ اس بات کی زندہ مثالیں ہیں کہ پڑھی لکھی خواتین تعلیم کے سلسلے کو آگے بڑھا رہی ہیں۔