برطانوی محکمہ صحت کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق آج کے نوجوانوں میں پرانی نسل کے مقابلے میں شراب نوشی، تمباکو نوشی اور منشیات کے استعمال کا رجحان کم پایا جاتا ہے۔
محکمہ صحت کے تازہ اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ 18 برس سے کم عمر لڑکیوں میں حمل کے کیسوں کی تعداد میں گزشتہ 40 برسوں کے بعد ڈرامائی حد تک کمی واقع ہوئی ہے جبکہ اسقاط حمل کے کیسوں کی تعداد میں بھی نمایاں کمی آئی ہے۔
برطانوی اخبار 'میل آن لائن' کے مطابق حکام کا کہنا ہے کہ اس رجحان میں تبدیلی کی وضاحت کے طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کی ایک بڑی وجہ آبادی میں آنے والی تبدیلیاں ہیں۔
آج برطانیہ میں پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ بڑی تعداد میں مسلمان نوجوان رہتے ہیں جو کہ شراب نوشی، تمباکو نوشی، منشیات اور جنسی سرگرمیوں سے پرہیز کرتے ہیں۔
اس سلسلے میں ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کے نتیجے میں نوجوانوں کے رویے میں ایک بڑی تبدیلی آئی ہے جو آمنے سامنے کے بجائے زیادہ تر فیس بک اور ٹوئٹر کے ذریعے ایک دوسرے سے بات چیت کرنا پسند کرتے ہیں اوریہ وہ تبدیلی ہے جس کی وجہ سے اب انھیں شراب، سگریٹ، منشیات اور جنسی سرگرمیوں کا کا وقت نہیں ملتا۔
برطانوی دفتر شماریات ( او این ایس) کی رپورٹ سال 2013-2012 کے اعداوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ کم عمر لڑکیوں میں حمل کی شرح میں ایک تہائی کمی واقع ہوئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق 1969ء میں 18 سال سے کم عمر حاملہ لڑکیوں کی تعداد 45,000 تھی جو کہ 2011ء میں کم ہو کر 30,000 سے کچھ زیادہ رہ گئی ہے۔ اسی طرح اسقاط حمل کے کیسسزکی شرح میں بھی سال 2013 ء میں کمی ہوئی ہے۔
محکمۂ صحت کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2003ء میں باقاعدہ سگریٹ نوشی کرنے والے ٹین ایج نوجوانوں کی تعداد نو فیصد تھی جو گزشتہ برس گھٹنے کے بعد تین فیصد رہ گئی ہے۔
علاوہ ازیں اسکول کے منشیات کے عادی بچوں کی بھی آدھی رہ گئی ہے جو 30 فیصد کے مقابلے میں گزشتہ برس 16 فیصد تھی۔
وزیر صحت جین الیسن نے رپورٹ پرتبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ نوجوانوں میں شراب، تمباکو نوشی اور منشیات سے پرہیز کا موجودہ رجحان خاصا حوصلہ افزا ہے ۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ اعدادوشمار اب بھی تسلی بخش نہیں لیکن جو نوجوان جلد صحت مند طرز زندگی اختیار کر لیتے ہیں انھیں زندگی کامیاب بنانے کے لیے اس سے بہت مدد مل سکتی ہے۔