پشاور کی مسجد میں دھماکا

دھماکے سے مسجد کو شدید نقصان پہنچا حتیٰ کہ مسجد کی چھت کا پلاسٹر بھی کئی جگہ سے اکھڑ گیا اور فرش پر گہرا گڑھا پڑگیا۔

دھماکے کے بعد پولیس اور دیگر سیکیورٹی اداروں کے اہلکار موقع پر پہنچ گئے جنہوں نے شواہد اکھٹا کیے۔

مختلف فلاحی تنظیموں کے رضا کاروں نے زخمیوں کو لیڈی ریڈنگ اسپتال منتقل کیا اور دھماکے بعد ادھر ادھر پھیل جانے والا سامان اکھٹا کیا۔

امدادی کاموں میں مقامی رہائیشوں اور مدرسے کے طلبا نے بھی حصہ لیا۔
 

فوری طور پر دھماکے کی نوعیت سے متعلق سرکاری طور پر کچھ نہیں بتایا گیا تاہم عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ دھماکہ دیسی ساختہ ریموٹ کنٹرول کا تھا۔

عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ درس کے دوران ایک شخص مبینہ طور پر مسجد کے احاطے میں ایک بیگ رکھ کر چلا گیا تھا جس کے بعد زور دار دھماکا ہوا۔

مقامی میڈیا میں عینی شاہدین کے حوالے سے بتایا جارہا ہے کہ دھماکے کے وقت مدرسے میں لوگوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔

پشاور کے جس مدرسے میں دھماکہ ہوا ہے اس کا نام جامعہ زبیریہ بتایا جاتا ہے۔

سینئرسپرنٹنڈنٹ پولیس آپریشن منصور امان نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ یہ امپرووائزڈ ایکسپلوزو ڈیوائس یعنی آئی ای ڈی دھماکا تھا جس میں 5 سے 6 کلو دھماکا خیز مواد استعمال کیا گیا۔

دھماکے کے فوری بعد پولیس اور دیگر سیکورٹی اداروں نے مسجد اور مدرسے کو گھیرے میں لے لیا جب کہ سوائے امدادی کارکنوں کے کسی کو اندر جانے کی اجازت نہیں تھی۔

گزشتہ ماہ سے اب تک خیبر پختونخواہ میں ہونے والا یہ تیسرا دھماکہ ہے۔ 29 ستمبر کو 24 گھنٹے کے دوران  2 دھماکے ہوئے تھے جس میں مجموعی طور پر 9 افراد جاں بحق جبکہ متعدد زخمی ہوگئے تھے۔