ننگرہار: داعش کے خلاف امریکی و افغان افواج کی کارروائیوں میں تیزی

فائل

ننگرہار صوبائی حکومت کے ترجمان، عطا اللہ خوشگی نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا ہے کہ داعش کے ٹھکانوں پر راکٹ حملے افغان سکیورٹی اداروں کی جانب سے فراہم کردہ خفیہ معلومات کی بنیاد پر کیے جا رہے ہیں

ایسے میں جب عراق اور شام میں داعش کے شدت پسند گروپ کو شکست پہ شکست ہو رہی ہے، امریکہ اور افغان افواج نے افغانستان کے مشرقی صوبہٴ ننگرہار میں اس گروپ سے منسلک دھڑے پر حملے تیز کر دیے ہیں۔

افغان سکیورٹی فورسز کے ساتھ رابطے میں رہتے ہوئے، امریکی فوج نے اچین، ہسکہ منا اور کوٹ اضلاع میں داعش کی کمین گاہوں پر جلال آباد کے فضائی اڈے سے راکٹ برسائے ہیں، جہاں امریکی افواج تعینات ہیں۔

گذشتہ تقریباً دو سال سے ملک کے مشرقی علاقے میں یہ دہشت گرد گروپ سرگرم ہے۔

کچھ عرصے سے، امریکی اور افغان افواج ننگرہار میں داعش کے شدت پسندوں کے خلاف زمینی اور فضائی کارروائیاں کر رہی ہیں۔ تاہم، راکٹ حملوں سے پتا چلتا ہے کہ ملک میں داعش کے خلاف لڑائی میں تیزی آ گئی ہے۔

ننگرہار صوبائی حکومت کے ترجمان، عطا اللہ خوشگی نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا ہے کہ داعش کے ٹھکانوں پر راکٹ حملے افغان سکیورٹی اداروں کی جانب سے فراہم کردہ خفیہ معلومات کی بنیاد پر کیے جا رہے ہیں۔

اُنھوں نے مزید کہا کہ راکٹ حملوں کا نشانہ داعش کے اہم ارکان بنے ہیں، جن میں متعدد ہلاک ہوگئے ہیں۔

راکٹ حملوں کا ٹھیک ٹھیک نشانہ

داعش کے زیر کنٹرول علاقوں میں بسنے والے لوگ خوشگی کی بات کو وزنی قرار دیتے ہیں اور اُن کے اعلان کا خیرمقدم کرتے ہیں، یہ کہتے ہوئے کہ راکٹ حملے ٹھیک نشانے پر اور مؤثر رہے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ افغان سلامتی افواج کی بَری کارروائیوں میں کبھی کبھار شہری آبادی کی ہلاکت بھی واقع ہوتی ہے۔

ولی اللہ دہ بالا ضلعے کے مقامی مکین ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ راکٹوں کا ہدف داعش کے ٹھکانے بنے ہیں، جب کہ شہری آبادی کو کوئی جانی نقصان نہیں پہنچا۔

ولی اللہ نے ’وائس آف امریکہ‘ کی افغان سروس کو بتایا کہ ’’فضائی کارروائیوں اور زمینی آپریشن کے نتیجے میں شہری آبادی کو نقصان پہنچا ہے۔ شہری (امریکی فوجی اڈے سے) فائر کئے گئے راکٹ درست نشانے پر لگے ہیں، جس سے شہری ہدف نہیں بنے‘‘۔

امریکی اور افغان سکیورٹی فورسز ننگرہار اور ہمسایہ صوبہٴ کُنڑ میں داعش کے شدت پسندوں کے خلاف انسدادِ دہشت گردی کی مشترکہ کارروائیاں کر رہی ہیں۔

ڈرون حملے کامیاب ثابت ہوئے ہیں

اس سے قبل، اِسی سال، امریکی فوج اور افغان حکومت نے سنہ 2017 کے اواخر تک افغانستان سے داعش کے خاتمے کا عہد کیا ہے۔ داعش کے سینکڑوں لڑاکوں کو، جن میں متعدد سینئر کمانڈر شامل ہیں، حالیہ مہینوں کے دوران ہلاک کیا گیا ہے۔

منگل کی رات گئے مشتبہ امریکی ڈرون حملے میں صوبہٴ کُنڑ میں داعش کے شدت پسندوں کے ایک اجتماع کو نشانہ بنایا گیا، جس دوران 11 لڑاکے ہلاک ہوئے، جن میں داعش کے چار کمانڈر شامل تھے۔

پینٹاگان نے فوری طور پر منگل کے ڈروں حملے کی تصدیق نہیں کی۔

داعش کا شدت پسند گروپ صوبہٴ ننگرہار کے متعدد اضلاع میں سرگرم ہے۔ حالیہ دِنوں، اُس نے کُنڑ اور نورستان صوبوں کے سنگلاخ ہمسایہ علاقے میں بھی کَل پُرزے نکالے ہیں، جس کی سرحد پاکستان کے ساتھ ملتی ہے، تاکہ وہ اپنی مستقل موجودگی ثابت کر سکے۔

شدت پسند سرغنے ہلاک

داعش کے ارکان کی زیادہ تر تعداد پاکستانی طالبان لڑاکوں اور کچھ سابق افغان طالبان پر مشتمل ہے، جب کہ اِس میں دیگر قومیتوں سے تعلق رکھنے والے شدت پسند بھی شامل ہیں، جن کا تعلق بھارت، ایران، روس اور ہمسایہ وسط ایشیائی ریاستوں سے ہے۔

مئی میں، دہشت گرد گروپ سے تعلق رکھنے والا، شیخ عبدالحسیب ہلاک ہوا، جو افغانستان میں اُس کا لیڈر تھا۔ حسیب مشرقی ننگرہار میں امریکی اورافغان افواج کی جانب سے کی گئی مشترکہ کارروائی میں ہلاک ہوا۔

اُن کے پیش رو اور افغانستان میں داعش کی شاخ کے بانی، حافظ سعید خان، جو پاکستانی طالبان کے ایک سابق کمانڈر تھے، جولائی 2016ء میں ایک امریکی ڈرون حملے میں ہلاک ہوئے۔