امریکی ڈرون پروازیں دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی ہیں، طالبان

طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی کابل، افغانستان میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران گفتگو کر رہے ہیں۔فائل

افغانستان میں طالبان کی حکومت نے بدھ کے روز کہا ہے کہ ملک کی فضائی حدود میں امریکی ڈرون پروازیں طالبان اور امریکی حکومت کے درمیان طے پانے والے سن 2020 کے دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ دوسری جانب تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ طالبان کو خود ایسے سوالات کا سامنا ہے کہ آیا وہ القاعدہ جیسی تنظیموں کے ساتھ اب بھی روابط میں ہے جن کو ہدف بنانے کے لیے امریکہ ڈرون حملوں کو بطور ہتھیار استعمال کر رہا ہے۔

طالبان کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی نے امریکہ سے کہا کہ وہ افغانستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی نہ کرے۔ متقی نے دعوی کیا کہ امریکہ نے مصر سے تعلق رکھنے والے القاعدہ رہنما ایمن الظواہری کے مارنے کے اعلان کے بعد اس واقع کے متعلق کوئی دستاویز فراہم نہیں کی ہے۔

ذرائع ابلاغ کے مطابق امیر متقی نے بدھ کے روز ایک بریفنگ میں کہا کہ القاعدہ رہنما کی موت کے حوالے سے طالبان کی اپنی تحقیقات جاری ہیں۔

خیال رہے کہ صدر جو بائیڈن نے اعلان کیا تھا کہ امریکہ نے جولائی میں ایک کاروائی کے ذریعے القاعدہ کے رہنما الظواہری کو کابل میں ہلاک کر دیا تھا۔ رپورٹس کے مطابق الظواہری جس محفوظ گھر میں رہ رہے تھے وہ سراج الدین حقانی کے قریبی ساتھی کی ملکیت تھا۔

افغان طالبان گزشتہ سال امریکی افواج کے انخلا کے بعد عبور ی حکومت کے ذریعہ ملک پر حکمرانی کر رہے ہیں لیکن گزشتہ ایک سال میں ان کے چیلنجز میں مسلسل اضافہ ہوتا جار ہاہے۔

واشنگٹن میں پینٹاگون یعنی وزارت دفاع کے پریس سیکرٹری پیٹ رائیڈر نے کہا تھا کہ اس بات میں کوئی تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ افغانستان میں اسلامک اسٹیٹ (داعش) خراساں جیسے گروپ موجود ہیں۔انہوں نے کہا کہ ان گروپوں نے ظاہر کیا ہے کہ وہ دہشت گردی کی کاروائیاں کریں گے۔ رائیڈر نے کہا کہ یہی وہ چیز ہے جس کی امریکہ نگرانی کرتا رہے گا اور مناسب طریقے سے اس کا جواب دیتا رہے گا۔

Your browser doesn’t support HTML5

ایمن الظواہری کی ہلاکت میں کس میزائل ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا؟

امریکی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی کہتے ہیں کہ یہ کارروائی ظاہر کرتی ہے کہ افغانستان کی سر زمین پر امریکی افواج کی غیر موجودگی میں، یعنی انہیں خطرات میں ڈالے بغیر بھی، امریکہ دنیا کے انتہائی مطلوب دہشت گرد کی شناخت اور اس کا پتہ لگانے اور اس دہشت گرد کو میدان جنگ سے ہٹانے کی کارروائی کرنے کے قابل ہے۔

یاد رہے کہ افغان طالبان نے پاکستان پر بھی گزشتہ ماہ الزام لگایا تھا کہ اس نے امریکہ کو افغانستان میں ڈرون کاروائی کے لیے اپنی فضا استعمال کرنے کی اجازت دی تھی۔ پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے ان الزامات کی تردید کی تھی۔

طالبان کے تازہ ترین بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے خطے میں سلامتی اور بین الاقوامی امور کے ماہر اورتحقیقی ادارے پولیٹیکٹ کے تجزیہ نگار عارف انصار کہتے ہیں کہ طالبان کے تازہ ترین بیان کے کئی مطلب ہو سکتے ہیں۔

عارف انصار کے بقول ایک طرف تو افغان طالبان عوام کو یہ تاثر دے رہیں کہ طالبان کی حکومت افغانستان کی خود مختاری پر سودے بازی نہیں کر رہی ۔ لیکن دوسری جانب افغانستان کے بد سے بد تر ہوتے ہوئے حالات کے تناظر میں یہ بیان طالبان کے ابہام کو ظاہر کرتا ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

القاعدہ رہنما کو کابل میں پناہ دینا دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی تھی، تجزیہ کار

الظواہری کی کابل میں ہلاکت کے بعد اس بات پر سوال اٹھائے جارہے ہیں کہ کیا طالبان دوحہ معاہد کے تحت القاعدہ سے اپنے تعلقات ختم کر چکے ہیں یا اس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دہشت گرد گروپ سے ابھی تک تعلقات قائم کیے ہوئے ہیں۔

یاد رہے کہ امریکہ کے وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے، خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق، کہا تھا کہ طالبا ن نے الظواہری کو ملک میں رہنے کی اجازت دے کر سن 2020 کے معاہدے کی سنگین خلاف ورزی کی تھی،

سلامتی امور کے ماہر عارف انصار نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ داعش کے حملوں نے طالبان کی عبوری حکومت کے مسائل میں بہت زیادہ اضافہ کردیا ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے انہیں بیرونی تعاون کی ضرورت ہے ۔ لیکن اس سلسلے میں وہ کہتے ہیں کہ طالبان کے گروپ میں سخت گیر پالیسی پر یقین رکھنے والے لوگ بھی ہیں اور میانہ روی کے حامی بھی۔ ان دونوں کو ایک ہی وقت میں مطمئن کرنا بہت مشکل ہے۔

عارف انصار کے مطابق تیسرا پہلو یہ ہے کہ طالبان کو اقتصادی امداد کے لیے امریکی تعاون کی ضرورت ہے جبکہ وہ عوامی سطح پر امریکہ کے قریب بھی نہیں دکھائی دینا چاہتے کیونکہ داعش ان کے خلاف پراپیگنڈہ کر رہی ہے کہ یہ بیرونی حکومتوں کے آلہ کار ہیں۔ " لہذا ان چیلنجز کے پیش نظر طالبان کی پالیسی واضح نظر نہیں آرہی ہے۔ لیکن انہیں اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنا ہوگی"۔