افغانستان: خواتین پر پُرتشدد حملوں میں اضافہ

افغانستان

تاہم، اب افغان وکلا کا استغاثہ اور عدالتیں عورتوں کے خلاف تشدد کے زیادہ واقعات رجسٹر کر رہے ہیں اور ان جرائم کے مرتکب افراد کو سزائیں بھی دی جا رہی ہیں: اقوام متحدہ
پچھلے دِنوں، کابل سے جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں افغانستان میں قائم اقوام ِ متحدہ کے امدادی مشن UNAMA نے بتایا ہے کہ افغانستان میں عورتوں پر پُرتشدد حملوں کے واقعات میں اِس سال دوگنا سے بھی زیادہ اضافہ ہوا ہے۔


اقوام ِ متحدہ کے مشن کی حقوق ِ انسانی سے متعلق ڈائریکٹر Georgette Gagnon کا کہنا ہے کہ اب افغان وکلا کے استغاثہ اور عدالتیں عورتوں کے خلاف تشدد کے زیادہ واقعات رجسٹر کر رہی ہیں اور ان جرائم کے مرتکب افراد کو سزائیں بھی دی جا رہی ہیں۔

تاہم، انہوں نے کہا کہ افغانستان میں عورتوں کے خلاف تشدد کے واقعات کو وہاں کی سماجی بندشوں اور رسم و رواج کی وجہ سے رپورٹ نہیں کیا جاتا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہاں پر بدامنی کے سبب عورتیں عدالت تک پہنچنے نہیں پاتیں۔

گیگنون کہتی ہیں کہ افغانستان سے ہی عورتوں پر تشدد کے واقعات کے بارے میں جو اطلاعات قانون کا نفاذ کرنے والوں یا عدالت تک پہنچ جاتی ہیں وہ اتنی سنگین ہوتی ہیں کہ ان کے بارے میں عام لوگوں کو بھی معلوم ہو جاتا ہے۔ لیکن ان کی یہ تعداد بہت ہی کم ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ مسئلہ اس وقت تک حل نہیں ہوگا، جب تک عورتوں کے خلاف تشدد کے خاتمے کا کوئی باضابطہ قانون نہیں بن جاتا۔

آڈیو رپورٹ سننے کے لیے کلک کیجئیے:

Your browser doesn’t support HTML5

افغان خواتین کی حالت زار


انہوں نے کہا کہ حالانکہ وکلائے استغاثہ اور عدالتیں عورتوں کے خلاف تشدد کے خاتمے کے اس قانون کا اب زیادہ اطلاق کر رہی ہیں، لیکن اس قانون کا استعمال اب بھی بہت کم کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں اب بھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔

افغان قانون ساز Gulali Noor Safi نے VOA کو بتایا کہ اس قانون اور اپنے حقوق کےبارے میں عام لوگوں کو عموماً معلومات ہی نہیں ہوتیں۔ اسکے علاوہ ملک میں عدم تحفظ کی صورتحال نے بھی اس قانون کے نفاذ میں دشواریاں پیدا کی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ زیادہ تر لوگ اس قانون کو جانتے ہی نہیں ہیں، خصوصاً عورتوں کو اس قانون کے بارے میں کچھ نہیں معلوم کہ اسے عورتوں کے فائدے کے لیے کس طرح سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ غیر محفوظ مقامات پر مقامی اور روایتی عدالتی نظام ہے۔ اس لیے، اس پر عملدرآمد کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ تاہم، افغان قانون ساز اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ عورتوں کے خلاف تشدد جیسے مسائل کو حل کرنے میں ابھی بہت وقت لگے گا۔

وہ کہتی ہیں کہ گیارہ سال پہلے کے مقابلے میں جب طالبان کی حکمرانی تھی اب حالات بہت بہتر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افغان لڑکیوں کو اب تعلیم حاصل کرنے کا حق حاصل ہے۔ عورتیں اب پارلیمنٹ میں ہیں اور اب وہ بغیر کسی روک ٹوک کے کام کرنے کے لیے گھر سے باہر جا سکتی ہیں۔