افغان طالبان کے درمیان قیادت کے مسئلے پر اختلافات مزید سنگین ہو گئے ہیں اور طالبان کے ایک دھڑے نے ملا محمد رسول کو اپنا سربراہ بنانے کا اعلان کیا ہے۔
طالبان کے الگ ہونے والے دھڑے کے ترجمان منان نیازی نے کہا ہے کہ طویل مباحثے کے بعد ملا محمد رسول کو تنظیم کا نیا قائد بنایا گیا ہے۔
تاحال یہ واضح نہیں کہ ملا محمد رسول کے گروپ میں کتنے افراد شامل ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
افغانستان چاہے تو مصالحت کے عمل میں کردار ادا کر سکتے ہیں: قاضی خلیل اللہ
رواں سال جولائی میں طالبان کے امیر ملا عمر کے انتقال کی خبروں کے بعد ہی سے افغان طالبان میں قیادت کے معاملے پر اختلافات سامنے آنا شروع ہو گئے تھے لیکن اس دوران ہی ملا اختر منصور کو طالبان کا نیا سربراہ بنائے جانے کا اعلان کر دیا گیا۔
ملا عمر کے بیٹے اور بھائی کی طرف سے بھی پہلے ملا اختر منصور کی بطور سربراہ تقرری کی مخالفت کی گئی لیکن بعد میں اُنھوں نے ملا اختر کی تائید کر دی۔
طالبان کے درمیان اختلافات افغانستان میں امن و مصالحت کی کوششوں کے لیے بظاہر ایک اور دھچکا ہیں۔
اُدھر پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان قاضی خلیل اللہ نے کہا کہ طالبان کے درمیان اختلافات اُن کا اندرونی معاملہ ہے، لیکن اگر افغانستان چاہے تو پاکستان امن مذاکرات کی بحالی میں کردار ادا کر سکتا ہے۔
واضح رہے کہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان پہلے براہ راست مذاکرات کی میزبانی پاکستان نے رواں سال جولائی کے اوائل میں کی تھی۔ امن کے حصول کے سلسلے میں بات چیت کا دوسرا دور بھی پاکستان ہی میں جولائی کے اواخر میں ہونا تھا۔
لیکن بات چیت کے اس دور سے محض دو روز قبل ہی یہ خبر سامنے آئی کہ ملا عمر کا انتقال ہو چکا ہے۔
اس خبر کے بعد ابتدا میں یہ اعلان کیا گیا کہ بات چیت کا عمل موخر کیا جا رہا ہے لیکن بعد میں طالبان کے باہمی اختلافات اور پھر جنگجوؤں کی طرف سے افغانستان میں پر تشدد حملوں میں اضافے کے بعد یہ عمل کھٹائی میں پڑ گیا۔
پاکستان اور امریکہ افغانستان میں امن و مصالحت کے عمل کے حامی ہیں، عہدیداروں کی جانب سے یہ کہا جاتا ہے رہا ہے کہ اس معاملے کے حقیقی فریق افغان حکومت اور طالبان ہیں، اور اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ امن کے لیے با مقصد بات چیت ہو سکتی ہے تو اسلام آباد اس عمل کی نا صرف حمایت کرے گا بلکہ سہولت کار کا کردار بھی ادا کرے گا۔