افغان وزارتِ دفاع نے جمعرات کو اِس بات کی تصدیق کی ہے کہ سماجی میڈیا پر گردش کرنے والی وڈیو، جس میں دکھایا گیا ہے کہ افغانستان کے جنوبی صوبہٴ ہیلمند میں ایک غیر ملکی عسکریت پسند کو پکڑا گیا ہے، ’’مستند ہے‘‘، اور یہ کہ مشتبہ شخص ایک جرمن شہری ہے، جو آٹھ سے زائد برسوں سے طالبان کے ساتھ کام کرتا رہا ہے۔
وزارتِ دفاع کے ترجمان، جنرل دعوت وزیری نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ ’’پیر کی رات ہماری کمانڈو فورسز نے تین مشتبہ باغیوں کو گرفتار کیا، جن میں سے دو افغان اور ایک جرمن شہری ہے۔ اِنہیں جنوبی صوبہٴ ہیلمند کے گرشک ضلعے میں مارے گئے چھاپے کے دوران پکڑا گیا‘‘۔
وزیری نے مزید کہا کہ ’’اُن سے ہتھیار، کارتوس اور فوجی آلات برآمد ہوئے‘‘۔
ہیلمند کے صوبائی حکام نے بتایا ہے کہ مبینہ جرمن شہری، جن کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی، گذشتہ سال سے جنوبی صوبہٴ ہیلمند میں طالبان کے مشیر رہے ہیں جنھیں اُس وقت گرفتار کیا گیا جب طالبان کے حجرے پر چھاپہ مارا گیا جس کے لیے گمان تھا وہاں بم تیار کیے جاتے ہیں۔
مقامی افغان پولیس کے سربراہ، جنرل محمد داؤد تراخیل نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ ’’جرمن شہری طالبان کے سُرخ یونٹ (طالبان کمانڈو) کے جنوبی صوبہٴ ہیلمند میں مشیر کے طور پر کام کیا کرتے تھے‘‘۔
صوبائی اہل کاروں کا کہنا ہے کہ مشتبہ شخص سے پوچھ گچھ ہوگی آیا اُن کا طالبان سے کیا تعلق ہے۔
ہیلمند کے گورنر کے ترجمان، عمر زواق نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ مزید تفتیش کے لیے مشتبہ شخص کو قندھار منتقل کیا گیا ہے۔
’دو سو پندرہ کور‘ کے ایک افغان جنرل نے ’بی بی سی‘ کو بتایا کہ مشتبہ شخص جنوبی صوبہٴ قندھار میں فوجی حراست میں ہے۔
تاہم، کابل میں ’نیٹو رزولوٹ سپورٹ‘ کے صدر دفتر میں فوجی کپتان، ٹوم گریزبیک نے بتایا ہے کہ وہ اس بات کی تصدیق نہیں کر سکتے آیا مشتبہ شخص امریکی حراست میں ہے، اور اس معاملے پر مزید معلومات کے لیے افغان حکام سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
نہ تو جرمن حکومت ناہی امریکی قیادت والے ’نیٹو مشن‘ کے لیے خدمات بجا لانے والی جرمن افواج نے اِس خبر پر کسی ردِ عمل کا اظہار کیا ہے۔