ابتدائی نتائج: عبداللہ اور غنی، کانٹے کا مقابلہ

عبداللہ عبداللہ

ابتدائی غیر حتمی نتائج کے مطابق، عبداللہ عبداللہ کو سبقت حاصل ہے، جنھیں اب تک تقریباً 42 فی صد ووٹ پڑے ہیں۔ اُن کے بعد اشرف غنی ہیں، جنھیں 38 فی صد ووٹ حاصل ہوئے ہیں
پانچ اپریل کو منعقدہ افغانستان کے صدارتی انتخابات کے ابتدائی سرکاری نتائج آنا شروع ہوگئے ہیں، جِن سے پتا چلتا ہے کہ سابق وزیر خزانہ اشرف غنی اور حزب مخالف کے سیاستداں، عبد اللہ عبداللہ کے درمیان سخت مقابلہ جاری ہے۔

اتوار کے روز خودمختار افغان انتخابی کمیشن نے بتایا ہے کہ تقریباً 500000 ووٹوں کی گنتی مکمل ہوچکی ہے، اور یہ کہ ابتدائی اعداد و شمار کے مطابق، عبداللہ عبداللہ کو سبقت حاصل ہے، جنھیں اب تک تقریباً 42 فی صد ووٹ پڑے ہیں۔ اُن کے بعد اشرف غنی ہیں، جنھیں 38 فی صد ووٹ حاصل ہوئے ہیں۔

مجموعی طور پر 70 لاکھ ووٹ ڈالے گئے تھے۔


تیسرے امیدوار، زلمے رسول، جو صدر حامد کرزئی کے بھائیوں کی حمایت سے انتخابات لڑ رہے ہیں، بہت پیچھے ہیں، جنھیں 10 فی صد سے بھی کم ووٹ پڑے ہیں۔

الیکشن کمیشن کے سربراہ، احمد یوسف نورستانی نے اتوار کے دِن خبردار کیا کہ اب تک کی ووٹوں کی گنتی افغانستان کے 34 صوبوں میں سے محض 26 کی10 فی صد پولنگ اسٹیشنوں کی غمازی کرتی ہے۔

حتمی نتائج کا اعلان 14 مئی کو متوقع ہے۔

افغان عہدے داروں کا کہنا ہے کہ ریکارڈ پر آنے والی سنگین نوعیت کی انتخابی دھاندلیوں کا شمار سنہ 2009 میں ہونے والے الیکشن کے اعداد سے کہیں زیادہ ہے، جب دس لاکھ سے زیادہ ووٹوں کو منسوخ کیا گیا تھا۔

نورستانی نے وعدہ کیا ہے کہ اِن الزامات کی چھان بین ہوگی۔

طالبان نے پانچ اپریل کے انتخابات میں رخنہ ڈالنے کی دھمکی دے رکھی تھی، تاہم انتخابات نسبتاً پُرامن ماحول میں منعقد ہوئے، جب کہ اس سےچند ہی ہفتے قبل ہونے والے متعدد حملوں کے واقعات میں سیاست دانوں، صحافیوں اور اسکیورٹی افواج کو ہدف بنایا گیا تھا۔

آئین کی رو سے، صدر کرزئی پر تیسری مدت کے لیے انتخاب لڑنے کی ممانعت عائد تھی۔ امریکی قیادت میں لڑنے والی افواج نے 2001ء میں طالبان کی حکومت کو شکست دی، اور تب سے ہی وہ عہدہٴ صدارت پر فائز رہے ہیں۔