اِس کی ابتدا کیسے ہوئی؟ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اِس روایت کی ابتدا فرعون کے زمانے میں ہوئی جب کہ بعض اسے قبطی کلیساؤں کے دور سے منسوب کرتے ہیں۔ لیکن، جو بات روز روشن کی طرح عیاں ہے وہ یہ کہ اِس روایت کا مصر اور رمضان سے گہرا رشتہ ہے
رمضان کے متبرک مہینے کے دوران مصر کی گلیاں لالٹین کی روشنی سے جگ مگا اٹھتی ہیں، جسے عرف عام میں ’فانوس ‘کہا جاتا ہے۔
وائس آف امریکہ کی مارگریٹ بشیر نے قاہرہ سے رپورٹ بھیجی ہے کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس روایت کی ابتدا فرعون کے زمانے میں ہوئی جب کہ بعض اسے قبطی کلیساؤں کے دور سے منسوب کرتے ہیں۔ لیکن، جو بات روز روشن کی طرح عیاں ہے وہ یہ ہےکہ اِس روایت کا مصر اور رمضان سے گہرا رشتہ ہے۔
رمضان شروع ہونے سے کچھ ہی ہفتے قبل احمد ابو کمال جیسےلالٹین فروخت کرنے والے لوگ قاہرہ کی مارکیٹ اور گلیوں کا رُخ کرتے ہیں، جسے ’فانوس‘ یا جمع کے صیغے میں ’فوانیس‘ کہا جاتا ہے۔
مصر کے روایتی فوانیس ٹین اورشیشے کی چادر سے بنے ہوئے ہوتے ہیں اور اُن پر 10اور 20ڈالر تک کی لاگت آتی ہے۔
تاہم، اِس جدید دور میں چین میں بنی ہوئی سستی لالٹینیں جو بیٹری سےچلتی ہیں اور موسیقی کی اضافی رونق سے مزین ہیں، مسابقت میں پیش پیش ہیں۔
اِس کی ابتدا کیسے ہوئی؟ اِس کے پیچھے کئی ایک کہانیاں ہیں۔ ایک کےمطابق یہ رنگ برنگی لالٹینیں فرعون کے زمانے میں شروع ہوئیں۔ پرانے زمانے میں مصر کے باشندے پانچ مورتیوں کےجنم دن پر پانچ راتوں کے لیے مصر کی گلیوں میں چراغان کیا کرتے تھے۔
ایک اور روایت کے مطابق لالٹین روشن کرنے کی ابتدا قبطی کلیساؤں کے زمانے سے ہوئی، جو کرسمس کے دنوں میں رنگین موم بتیاں جلایا کرتے تھے۔
ایک اور روایت کےمطابق دسویں صدی عیسوی میں فاطمی خلفا کے دور میں رمضان کے آغاز کے اعلان کے طور پر رویت ہلال کے دن بچے لاٹینیں لے کر خوشی کے گیت گاتے پھرتےتھے۔
امال احمد نامی بڑی امان کا کہنا ہے کہ رمضان کے آغاز پر سارے بچے فرما ئش کرتے ہیں کہ اُنھیں ایک نیا فانوس لے کر دیا جائے۔
آپ اِسے کوئی سا بھی نام دیجیئے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ رمضان کےدوران مصر کی راتیں جادو کی نگری کا سماں پیش کرتی ہیں۔
وائس آف امریکہ کی مارگریٹ بشیر نے قاہرہ سے رپورٹ بھیجی ہے کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس روایت کی ابتدا فرعون کے زمانے میں ہوئی جب کہ بعض اسے قبطی کلیساؤں کے دور سے منسوب کرتے ہیں۔ لیکن، جو بات روز روشن کی طرح عیاں ہے وہ یہ ہےکہ اِس روایت کا مصر اور رمضان سے گہرا رشتہ ہے۔
رمضان شروع ہونے سے کچھ ہی ہفتے قبل احمد ابو کمال جیسےلالٹین فروخت کرنے والے لوگ قاہرہ کی مارکیٹ اور گلیوں کا رُخ کرتے ہیں، جسے ’فانوس‘ یا جمع کے صیغے میں ’فوانیس‘ کہا جاتا ہے۔
مصر کے روایتی فوانیس ٹین اورشیشے کی چادر سے بنے ہوئے ہوتے ہیں اور اُن پر 10اور 20ڈالر تک کی لاگت آتی ہے۔
تاہم، اِس جدید دور میں چین میں بنی ہوئی سستی لالٹینیں جو بیٹری سےچلتی ہیں اور موسیقی کی اضافی رونق سے مزین ہیں، مسابقت میں پیش پیش ہیں۔
اِس کی ابتدا کیسے ہوئی؟ اِس کے پیچھے کئی ایک کہانیاں ہیں۔ ایک کےمطابق یہ رنگ برنگی لالٹینیں فرعون کے زمانے میں شروع ہوئیں۔ پرانے زمانے میں مصر کے باشندے پانچ مورتیوں کےجنم دن پر پانچ راتوں کے لیے مصر کی گلیوں میں چراغان کیا کرتے تھے۔
ایک اور روایت کے مطابق لالٹین روشن کرنے کی ابتدا قبطی کلیساؤں کے زمانے سے ہوئی، جو کرسمس کے دنوں میں رنگین موم بتیاں جلایا کرتے تھے۔
ایک اور روایت کےمطابق دسویں صدی عیسوی میں فاطمی خلفا کے دور میں رمضان کے آغاز کے اعلان کے طور پر رویت ہلال کے دن بچے لاٹینیں لے کر خوشی کے گیت گاتے پھرتےتھے۔
امال احمد نامی بڑی امان کا کہنا ہے کہ رمضان کے آغاز پر سارے بچے فرما ئش کرتے ہیں کہ اُنھیں ایک نیا فانوس لے کر دیا جائے۔
آپ اِسے کوئی سا بھی نام دیجیئے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ رمضان کےدوران مصر کی راتیں جادو کی نگری کا سماں پیش کرتی ہیں۔