بہت سے لوگوں اس وقت بہت مایوسی ہوتی ہے جب وہ اپنے پیاروں کےمرنے کے بعد ان کی آن لائن زندگیوں تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر ناکام رہتے ہیں۔
انٹرنیٹ کے فروغ سے دنیا بھر میں بے شمار آن لائن اکاؤنٹ کھولے گئے ہیں۔ اکثر لوگ ای میل، سو شل میڈیامثلاً فیس بک اور ٹوئٹر اور دوسرے آن لائن اکاؤنٹ میں ذاتی نوعیت کا بہت سا ڈیجیٹل مواد ایسے ہی چھوڑ دیتے ہیں۔
مگر ہمارے مرنے کے بعد اس ذاتی ڈیجیٹل مواد کا کیا ہوتا ہے؟ کون ہماری آن لائن وراثت کو کنٹرول کرتا ہے؟ بہت سے لوگوں اس وقت بہت مایوسی ہوتی ہے جب وہ اپنے پیاروں کےمرنے کے بعد ان کی آن لائن زندگیوں تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر ناکام رہتے ہیں۔
فیس بک پر تمام مواد اس کی ملکیت
جب اکیس سالہ بنجمن سٹیسن نے خود کشی کی تو وہ ایک بہت بے فکرا اور اپنے کالج کی زندگی میں مگن انسان نظر آتا تھا۔ اس کی موت کے بعد سے اس کے والدین یہ کھوج لگانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اس نے ایسا کیوں کیا۔
اس کے والدہ ایلس نے کہا،’’ہمیں بنجمن کی موت سے بہت دھچکا لگا ہے۔ ‘‘
اس کےوالد جے سٹیسن نے کہا کہ’’ ہم نے اس کے سوشل میڈیا اور ای میل اکاؤنٹ تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ یہ جان سکیں کہ اس کی زندگی میں ایسا کیا ہو رہا تھا۔‘‘
وہ خاص طور پر اس کے فیس بک اکاؤنٹ تک رسائی حاصل کرچاہتے ہیں تاکہ اس کے پرائیوٹ پیغام پڑھ سکیں۔ مگر سب لوگوں کی طرح بنجمن سٹاسن نے بھی فیس بک اکاؤنٹ بناتے وقت شاید بغیر پڑھے ایک ایگری منٹ سائن کیا تھا جس کے مطابق اس کے اکاؤنٹ پر موجود تمام مواد کمپنی کی ملکیت ہے۔
اس کے والد کا کہنا ہے کہ مرنے والے کے والد کی حیثیت سے اس کے اکاؤنٹ تک رسائی حاصل کرنا تو دور کی بات ہے، کمپنی سے رابطہ کرنا ہی ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔
لہٰذا انہوں نے عدالت سے ایک حکمنامہ حاصل کیا ہے جس میں فیس بک کمپنی کو کہا گیا ہے کہ وہ ان کو اپنے بیٹے کے اکاؤنٹ تک رسائی دے ۔تاہم ابھی تک فیس بک نے اس حکمنامے پر عمل نہیں کیا۔
آن لائن وراثت
کچھ ایسا ہی میک ٹونیز کے خاندان اور دوستوں کے ساتھ بھی ہوا جو 2009 ءمیں نیند کی حالت میں انتقال کر گئےتھے۔وہ ایک مقبول بلاگ لکھتے تھے اور ان کے بہت سے آن لائن دوست اور مداح تھے۔ ان کی وفات کے بعد ان کے خاندان نے گوگل کمپنی سے اس بلاگ تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی ، مگر ناکام رہے ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے بلاگ کے تبصروں کے سیکشن میں بہت سے اشتہار جمع ہو گئے ہیں جو وہ عموماً ڈیلیٹ کر دیا کرتے تھے۔
کچھ کمپنیاں اس مسئلے کےایک نیا حل پیش کررہی ہیں تا کہ لوگ اپنی آن لائن وراثت پر کچھ کنٹرول حاصل کر سکیں۔ اس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنے تمام آن لائن اکاؤنٹس کے نام اور پاس ورڈ ایک ڈیجیٹل خانے میں اپ لوڈ کر دیں اور ساتھ ہی کمپنی کو یہ ہدایت دے دیں کہ آپ کے مرنے کے بعد آپ کے اکاؤنٹ کی کون سے فائلیں ختم کرنی ہیں اور کون سی متعین کردہ افراد کو پہنچانی ہیں۔
مگر میک ٹونیز کے ویب ڈیویلپر دوست مارک پلاٹنر نے ایک اور حل نکالا ہے۔ انہوں نے ان کے بلاگ کا تمام مواد سائٹ سکر نامی ایک پروگرام کے ذریعے ڈاؤن لوڈ کر کے اسےبالکل ویسے ہی ایک نئے بلاگ پر اپ لوڈ کیا ہے۔ مگر اب اس کا کنٹرول ان کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ وہ اس بات پر خوش ہیں کہ وہ اپنے دوست کی آن لائن وراثت کو زندہ رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔
ان کا یہ مشورہ آجکل کے ڈیجیٹل دور میں ہر کسی کو اپنی آن لائن وراثت کے بارے میں سوچنا چاہٍئے اور پہلے سے ہی اس کے متعلق اقدامات کرلینے چاہئیں۔
مگر ہمارے مرنے کے بعد اس ذاتی ڈیجیٹل مواد کا کیا ہوتا ہے؟ کون ہماری آن لائن وراثت کو کنٹرول کرتا ہے؟ بہت سے لوگوں اس وقت بہت مایوسی ہوتی ہے جب وہ اپنے پیاروں کےمرنے کے بعد ان کی آن لائن زندگیوں تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر ناکام رہتے ہیں۔
فیس بک پر تمام مواد اس کی ملکیت
جب اکیس سالہ بنجمن سٹیسن نے خود کشی کی تو وہ ایک بہت بے فکرا اور اپنے کالج کی زندگی میں مگن انسان نظر آتا تھا۔ اس کی موت کے بعد سے اس کے والدین یہ کھوج لگانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اس نے ایسا کیوں کیا۔
اس کے والدہ ایلس نے کہا،’’ہمیں بنجمن کی موت سے بہت دھچکا لگا ہے۔ ‘‘
اس کےوالد جے سٹیسن نے کہا کہ’’ ہم نے اس کے سوشل میڈیا اور ای میل اکاؤنٹ تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ یہ جان سکیں کہ اس کی زندگی میں ایسا کیا ہو رہا تھا۔‘‘
وہ خاص طور پر اس کے فیس بک اکاؤنٹ تک رسائی حاصل کرچاہتے ہیں تاکہ اس کے پرائیوٹ پیغام پڑھ سکیں۔ مگر سب لوگوں کی طرح بنجمن سٹاسن نے بھی فیس بک اکاؤنٹ بناتے وقت شاید بغیر پڑھے ایک ایگری منٹ سائن کیا تھا جس کے مطابق اس کے اکاؤنٹ پر موجود تمام مواد کمپنی کی ملکیت ہے۔
اس کے والد کا کہنا ہے کہ مرنے والے کے والد کی حیثیت سے اس کے اکاؤنٹ تک رسائی حاصل کرنا تو دور کی بات ہے، کمپنی سے رابطہ کرنا ہی ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔
لہٰذا انہوں نے عدالت سے ایک حکمنامہ حاصل کیا ہے جس میں فیس بک کمپنی کو کہا گیا ہے کہ وہ ان کو اپنے بیٹے کے اکاؤنٹ تک رسائی دے ۔تاہم ابھی تک فیس بک نے اس حکمنامے پر عمل نہیں کیا۔
آن لائن وراثت
کچھ ایسا ہی میک ٹونیز کے خاندان اور دوستوں کے ساتھ بھی ہوا جو 2009 ءمیں نیند کی حالت میں انتقال کر گئےتھے۔وہ ایک مقبول بلاگ لکھتے تھے اور ان کے بہت سے آن لائن دوست اور مداح تھے۔ ان کی وفات کے بعد ان کے خاندان نے گوگل کمپنی سے اس بلاگ تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی ، مگر ناکام رہے ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے بلاگ کے تبصروں کے سیکشن میں بہت سے اشتہار جمع ہو گئے ہیں جو وہ عموماً ڈیلیٹ کر دیا کرتے تھے۔
کچھ کمپنیاں اس مسئلے کےایک نیا حل پیش کررہی ہیں تا کہ لوگ اپنی آن لائن وراثت پر کچھ کنٹرول حاصل کر سکیں۔ اس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنے تمام آن لائن اکاؤنٹس کے نام اور پاس ورڈ ایک ڈیجیٹل خانے میں اپ لوڈ کر دیں اور ساتھ ہی کمپنی کو یہ ہدایت دے دیں کہ آپ کے مرنے کے بعد آپ کے اکاؤنٹ کی کون سے فائلیں ختم کرنی ہیں اور کون سی متعین کردہ افراد کو پہنچانی ہیں۔
مگر میک ٹونیز کے ویب ڈیویلپر دوست مارک پلاٹنر نے ایک اور حل نکالا ہے۔ انہوں نے ان کے بلاگ کا تمام مواد سائٹ سکر نامی ایک پروگرام کے ذریعے ڈاؤن لوڈ کر کے اسےبالکل ویسے ہی ایک نئے بلاگ پر اپ لوڈ کیا ہے۔ مگر اب اس کا کنٹرول ان کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ وہ اس بات پر خوش ہیں کہ وہ اپنے دوست کی آن لائن وراثت کو زندہ رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔
ان کا یہ مشورہ آجکل کے ڈیجیٹل دور میں ہر کسی کو اپنی آن لائن وراثت کے بارے میں سوچنا چاہٍئے اور پہلے سے ہی اس کے متعلق اقدامات کرلینے چاہئیں۔