ایک ایرانی اہل کار نے کہا ہے کہ سعودی عرب کو جان لینا چاہیئے کہ اگر یمن کے تنازعے میں ایرانی میزائل استعمال ہوتے تو لڑائی کا نتیجہ بالکل مختلف ہوتا۔ یہ بات ایسے وقت کہی گئی ہے جب ایران حوثی باغیوں کو مسلح کرنے کے الزامات کو غیردرست قرار دینے کی صفائی پیش کر رہا ہے۔
یہ بات ایرانی پارلیمان کی قومی سکیورٹی اور امور خارجہ کمیشن کے ترجمان، حسین نقوی حسینی نے کہی ہے۔ اتوار کے روز اپنے کلمات میں اُنھوں نے کہا کہ ''ہم نے بارہا کہا ہے کہ یمنی فوج اور عوام کو ایران کی حمایت حاصل ہے۔ تاہم، ہم نے یہ بات بھی واضح کر دی ہے کہ ہم نے یمنیوں کو کوئی میزائل نہیں دیے''۔
یمن کے حوثی باغیوں نے گذشتہ منگل کو سعودی عرب پر دوسرا بیلسٹک میزائل فائر کیا۔ سعودی فضائی دفاع نے کہا ہے کہ میزائل کو کامیابی کے ساتھ جھپٹ لیا گیا۔ حوثیوں سے وابستہ، 'المسیرہ ٹی وی' نے بتایا ہے کہ بیلسٹک میزائل کا نشانہ ریاض میں الیمامہ کا شاہی محل تھا، جو سعودی شاہ کا سرکاری صدر دفتر ہے۔
حوثی راہنما، عبد المالک الحوثی نے ایک ٹیلی ویژن خطاب میں کہا ہے کہ ''ایسے میں جب آپ کے جرائم اور مظالم بڑھتے جا رہے ہیں، آپ کو ہمارے میزائلوں سے ہی واسطہ پڑے گا''۔
یمنی حوثی تحریک اور اُن کی اتحادی افواج نے کہا ہے کہ یہ میزائل ہی ہیں جن کی مدد سے وہ سعودی عرب کی مسلط کردہ لڑائی میں اپنا دفاع کر سکتے ہیں۔
اس ماہ کے اوائل میں، اقوام متحدہ میں امریکی سفیر، نکی ہیلی نے پہلے بیلسٹک میزائل کے ٹکڑے دکھاتے ہوئے کہا تھا کہ یہ چار نومبر، 2017ء کو ریاض کے شاہ خالد بین الاقوامی ہوائی اڈے کے قریب گرنےوالے میزائل کے پرزے ہیں۔
اس ملبے کے سامنے کھڑے ہوکر اپنے خطاب میں، ہیلی نے کہا تھا کہ اقوام متحدہ کو ثبوت مل گیا ہے کہ ایران نے حوثیوں کو میزائل اور دیگر ہتھیار فراہم کیے ہیں، جو شاہد بغیری صنعتی گروپ میں تیار ہوئے ہیں، جو ایران میں قائم ایک فرم ہے۔
ایران نے اِن تمام دعووں کی تردید کی ہے اور اِنھیں جھوٹا ثبوت قرار دیا ہے۔