عالمی ادارۂ صحت کے ایک اعلیٰ عہدیدار کا کہنا ہے کہ افغانستان میں ان کے ادارے کے پاس صرف "چند دن کی ضروریات پوری کرنے کا سامان باقی رہ گیا ہے'' اور انہیں وہاں کی طبی ضروریات کے لیے 10 سے 12 طیاروں میں طبی ساز و سامان پہنچانے کے لیے مدد کی ضرورت ہے۔
مشرقی بحیرۂ روم کے علاقے اور افغانستان کے لیے عالمی ادارۂ صحت کے سربراہ ڈاکٹر رک برینن نے قاہرہ میں بتایا کہ اقوام متحدہ کا صحت کا ادارہ اس سلسلے میں امریکہ اور دیگر ممالک کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے، تاکہ افغانستان میں درکار طبی ساز و سامان پہنچانے کے اقدامات کیے جا سکیں۔
برینن نے دبئی میں ایک ڈسٹری بیوشن سینٹر کا ذکر کرتے ہوئے کہا، "ہمارا اندازہ ہے کہ ہمارے پاس صرف چند دن کا سامان باقی رہ گیا ہے۔"
انہوں نے بتایا کہ افغانستان پہنچانے کے لیے ہمارے پاس 500 میٹرک ٹن رسد تیار ہے، لیکن ہمارے پاس اس ملک میں داخل ہونے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔
برینن نے کہا کہ امریکہ اور دیگر شراکت داروں نے ڈبلیو ایچ او سے کہا ہے کہ وہ اس سلسلے میں کابل کے ایئر پورٹ کی بجائے افغانستان کے دیگر ہوائی اڈوں کے بارے میں سوچیں، کیونکہ طالبان کے قبضے کے بعد سے کابل کے ایئرپورٹ پر انخلا کرنے والوں کو لے جانے والی پروازوں کا شدید دباؤ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ حکام نے کہا ہے کہ زمینی حالات کے باعث کابل ایئرپورٹ کے راستے طبی رسد لانا بہت مشکل ہو گا، کیونکہ سامان کو طیاروں سے اتارنے اور ٹرکوں میں لاد کر مراکز میں پہنچانے کے لیے کئی مراحل کی ضرورت ہو گی جس سے لوگوں کے انخلا کا عمل متاثر ہو سکتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ افغانستان کے لیے تیار کی جانے والی طبی رسدوں میں ایمرجنسی کٹس اور دائمی امراض کے علاج مثال کے طور پر ذیابیطس کی ضروری ادویات شامل ہیں۔
برینن نے کہا، "ہمیں توقع ہے کہ آنے والے دنوں میں ہم اس سلسلے میں کچھ کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے''۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جتنی جلد ممکن ہو سکے ہمیں افغان عوام کے لیے انسانی ہمدردی کی امداد پہنچانے کا فضائی ذریعہ قائم کرنا ہو گا۔