بھارت میں ان دنوں دنیا کا سب سے بڑا لاک ڈاؤن جاری ہے۔ اس کی ایک ارب 30 کروڑ سے زائد آبادی گھروں میں قید ہے۔ لاک ڈاؤن کے سبب سب سے زیادہ پریشانی ان افراد کو ہے جو کچی آبادیوں میں رہتے ہیں یا بے گھر ہیں۔ ایسے افراد کی تعداد بھی کروڑوں میں ہے۔ انہیں سخت اور مشکل ترین مسائل کا سامنا ہے۔
بھارت میں دنیا کا سب سے بڑا لاک ڈاؤن

9
مینا رمیش جاکھوڈیا کے شوہر رمیشن کو دور دراز کے علاقوں سے پینے کا صاف پانی لانا پڑتا ہے جب کہ رفع حاجت کے لیے جنگلوں، میدانوں اور ریلوے لائنز کے قریب جانا پڑتا ہے۔ خواتین دن میں رفع حاجت کے لیے گھروں سے نہیں نکل سکتیں اور صرف رات کو ہی محفوظ مقامات پر جا پاتی ہیں جس سے اکثر خواتین بیمار ہو جاتی ہیں۔

10
بھارت میں جہاں لاکھوں لوگوں کے لیے معاشرتی دوری ناممکن ہے، وہاں خطرہ یہ ہے کہ لاک ڈاؤن شہروں اور دیہاتوں کے لیے تباہی کا سبب نا بن جائے۔ مثلاً ممئی میں ایک مربع میل میں 77 ہزار افراد رہتے ہیں یہ شرح نیو یارک سٹی سے تقریبا 3 گنا زیادہ ہے۔ لوگ اپنی صحت پر خرچ کرنے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ طبی نظام ملک کے بہت سارے حصوں میں بمشکل ہی کام کرتا ہے۔ بڑے شہروں سے باہر سرکاری اسپتالوں تک عوام کی رسائی محدود ہے۔ اسپتالوں میں صفائی کا مناسب انتظام نہیں جب کہ دیہات میں تیسرے درجے کے ڈاکٹرز ہی دستیاب ہوتے ہیں لہذا کرونا وائرس کے متاثرین ایسے بھی کس قدر تکلیف میں مبتلا ہوسکتے ہیں اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔