رسائی کے لنکس

امریکی اخبارات سے: ایران کا مغربی طاقتوں سے جوہری سمجھوتہ


’وہائٹ ہاؤس کا یہ جوا، بالآخر ان مذاکرات کے آخری گھنٹوں میں بار آور ثابت ہوا، جب اعلان سے آدھ گھنٹے قبل ایرانیوں نے سمجھوتے میں ترمیم پر رضامندی کا اظہار کیا‘: اخباری رپورٹ

’وال سٹریٹ جرنل‘ کہتا ہے کہ ایران کا مغربی طاقتوں کے ساتھ جو جوہری سمجھوتہ طے پایا ہے، وہ نتیجہ ہے سفارت کاری کے دو الگ الگ راستوں کا، جن میں سے ایک تو خفیہ تھا ، جب کہ دوسرے کی بھرپُور تشہیر کی جارہی تھی۔

خُفیہ بات چیت وہائٹ ہاؤس کی سرپرستی میں صدر اوبامہ کی ذاتی نگرانی میں پانچ سال تک جاری رہی اور جسے، نہ صرف، واشنگٹن کے قریب ترین اتحادیوں سے، بلکہ، بعض سرکردہ امریکی عہدہ داروں سے بھی خُفیہ رکھا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ وُہ باقاعدہ مذاکرات بھی ہوتے رہے، جو امریکہ اور پانچ دُوسرے ملک، ایران کے ساتھ کرتے آئے ہیں۔

اخبار کہتا ہے کہ وہائٹ ہاؤس کا یہ جوا، بالآخر ان مذاکرات کے آخری گھنٹوں میں بار آور ثابت ہوا، جب اعلان سے آدھ گھنٹے قبل ایرانیوں نے سمجھوتے میں ترمیم پر رضامندی کا اظہار کیا۔

اخبار کہتا ہے کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صدر اوبامہ نے اپنا عہدہ سنبھالنے پر ایران کے ساتھ مذاکرات کو اپنی ترجیحات میں شامل کرلیا تھا۔

اخبار کہتا ہے کہ امریکی عہدہ دار خُفیہ طور پر ایران کے ساتھ رابطے میں رہے۔ اس کوشش میں اگست میں اہم پیش رفت ہوئی، جب امریکہ نے مسٹر اوبامہ کا پہلا خط ایران کے نئے صدر حسن روحانی تک پہنچایا۔

اس کے بعد، خفیہ مقامات پر ایرانیوں اور وہائٹ ہاؤس کے چیدہ اہل کاروں کے مابین خُفیہ مقامات پر چند میٹنگیں ہوئیں، جن میں امریکی معاون وزیر خارجہ ولیم برنز، اور وہائٹ ہاؤس کے ایرانی امور کے ماہر، پُنیت تلوار شامل تھے۔

اخبار نے امریکی عہدہ داروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ مسٹر برنز کئی ماہ سے سمجھوتے کی جُزئیات پر مذاکرات کرتے آئے ہیں، جب کہ مسٹر تلوار بھی ایرانیوں کے ساتھ خفیہ مذاکرات میں مصروف رہے ہیں۔ وزیر خارجہ جان کیری نےہفتے کے روز دیر گئے صدر اوبامہ کو ٹیلیفون پر باقی حل طلب امور سے آگاہ کیا، اور اس دوران امریکی اور ایرانی عہدہ دار معاہدے کی زبان کی نوک پلک درست کرتے رہے اور حتمی مسوّدے پر صدر اوبامہ نے خود دستخط کئے۔


’نیو یارک ٹائمز‘ کہتا ہے کہ ایران کے ساتھ ایک معاہدے کے لئے اس کامیاب کوشش کے نتیجے میں ایران کا جوہری پروگرام عارضی طور پر بند رہے گا۔ لیکن، آگے جو بہت بڑا چیلنج درپیش ہے، وہ ہے اس پروگرام کو مکمل بند کرنا۔ اس معاہدے کا فوری مقصد یہ ہے کہ ایرانی پروگرام کو چھ ماہ تک بند کیا جائے، اور اِس دوران مذاکرات کاروں کی یہ کوشش ہوگی کہ زیادہ مُشکل اور پائدار معاہدے پر اتفاق رائے ہوجائے۔

اخبار کہتا ہے کہ اگر امریکہ، ایران کے ساتھ سالہاسال کی عداوت پر قابو پانا چاہتا ہے، تو اُسے اپنے جوہری مکالمے کے اگلے دور میں اُن مسائیل کو حل کرنا ہوگا جو زیادہ بنیادی نوعیت کے ہیں۔ جن سفارت کاروں نے عارضی سمجھوتے کا متن تیار کیا ہے، اُنہوں نے اس کو مزید بڑھانے کی گنجائش بھی رکھی ہے اور کہا ہے باہمی رضامندی سے اس میں توسیع ہو سکتی ہے۔


اس سمجھوتے پر ’کرسچن سائینس مانٹر‘ کی یہ رائے ہے کہ صدر اوبامہ، ایران اور امریکہ کے مابین عشروں سے جاری کشیدہ تعلقات اور بے اعتمادی کو ختم کرنا چاہتے ہیں، اور جیسا کہ مسٹر اوبامہ نے خود کہا ہے، اس سمجھوتے سے ایک ایسے مستقبل کی طرف راستہ ہموار ہوا ہےجس میں ایران کے پرامن جوہری پروگرام کی تصدیق ہوسکےگی اور یہ کہ وہ جوہری بم نہیں بنا سکے گا۔

اخبار ’یو ایس ا ے ٹوڈے‘ نے ایک ادارئے میں ایران کے ساتھ اس سمجھوتے کو جوا قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ کے قریب ترین اتحادیوں، یعنی اسرائیل اور سعودی عرب نے کہا ہے کہ اس سے اُلٹا نتیجہ برآمد ہوگا۔ اور، اخبار کہتا کہ یہ عین ممکن ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ اگر ایران کے لئے تعزیرات کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ اپنا جوہری پروگرام برقرار رکھنا ممکن ہوا، تو وہ شمالی کوریا کی طرح یقناً ایسا کرے گا۔ اب تک ایران صرف اپنا جوہری پروگرام ملتوی کرنے پر تیار ہوا ہے اور اس کے خلاف سب سے تباہ کن تعزیرات ختم کرنے کے ساتھ ساتھ ایران کو مجبور کرنا پڑے گا کہ وہ جوہری ہتھیار بنانے کی بساط اُلٹ دے۔ اور اس مقصد کا حصول مشکل ہوگا۔ اگر مان لیا جائے کہ ایران کے نئےصدر حسن روحانی مخلص ہیں۔ پھر بھی اغلب یہی ہے کہ ایران کے رہبر اعلیٰ ، علی خامنئی، سخت گیر عناصر کا ساتھ دیں گے۔


اخبار کہتا ہے کہ خبردار رہنا ضروری ہے۔ لیکن، اس کے ساتھ ساتھ، ایسی وجوہات بھی ہیں جن کی بناٴ پر سفارت کاری کو بروئے کار لانا ضروری ہے۔
XS
SM
MD
LG