رسائی کے لنکس

کابل ایئر پورٹ پر مزید حملے ہو سکتے ہیں، امریکی سفارت خانے کا انتباہ


افغانستان سے امریکہ سمیت غیر ملکی افواج کے انخلا کے لیے 31 اگست تک کی ڈیڈلائن مقرر ہے۔
افغانستان سے امریکہ سمیت غیر ملکی افواج کے انخلا کے لیے 31 اگست تک کی ڈیڈلائن مقرر ہے۔

افغانستان کے دارالحکومت کابل میں امریکی سفارت خانے نے کابل ایئر پورٹ پر حملے کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے امریکی شہریوں سے ہوائی اڈے کی حدود سے دُور رہنے کی اپیل کی ہے۔ اس سے قبل صدر بائیڈن بھی اسی نوعیت کا انتباہ کر چکے ہیں۔

ہفتے کو جاری کیے گئے سیکیورٹی الرٹ میں امریکی شہریوں کو ایئرپورٹ سے دور رہنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ جو لوگ ایئر پورٹ کے اطراف بشمول جنوب (ایئرپورٹ سرکل) گیٹ، نئی وزارتِ داخلہ، ایئرپورٹ کے شمال مغربی حصے پنجشیر پیٹرول اسٹیشن کے قریب موجود ہیں انہیں فوری طور پر وہاں سے چلے جانا چاہیے۔

امریکی سفارت خانے کی جانب سے یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اس سے قبل امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے بھی ہفتے کو ایک بیان میں خبردار کیا تھا کہ 24 سے 36 گھنٹوں کے اندر کابل ایئر پورٹ پر ایک اور حملے کا خطرہ ہے۔

ان کا یہ بیان کابل ایئر پورٹ کے باہر جمعرات کو ہونے والے اس خود کش دھماکے کے بعد سامنے آیا ہے جس میں کم از کم 170 افغان شہری اور 13 امریکی فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔

یہ دھماکہ ایسے وقت میں ہوا تھا جب امریکی اور غیر ملکی افواج انخلا کا عمل جاری رکھے ہوئے تھے اور بڑی تعداد میں افغان شہری بھی ملک سے باہر جانے کے لیے ایئر پورٹ کے احاطے میں جمع تھے۔

صدر جو بائیڈن نے امریکی کمانڈرز کو ہدایت کی کہ انخلا کے عمل کو محفوظ بنانے کے لیے تعینات امریکی فوجیوں کا تحفظ بھی یقینی بنایا جائے۔

خیال رہے کہ بائیڈن اعلان کر چکے ہیں کہ 31 اگست تک افغانستان سے امریکی انخلا مکمل ہو جائے گا۔

وائٹ ہاؤس کے مطابق ہفتے کو 12 گھنٹوں کے دوران لگ بھگ دو ہزار افراد کا کابل سے انخلا کیا گیا جن میں ایک ہزار 400 افراد کو امریکی فوج کے طیاروں جب کہ باقی ماندہ کو اتحادی افواج کے طیاروں کے ذریعے کابل سے منتقل کیا گیا۔

وائٹ ہاؤس کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ 14 اگست سے لے کر اب تک امریکہ نے لگ بھگ ایک لاکھ 13 ہزار پانچ سو افراد کا انخلا کیا یا انخلا میں مدد کی ہے جب کہ جولائی کے اواخر سے اب تک امریکہ تقریباً ایک لاکھ 19 ہزار افراد کو افغانستان سے منتقل کر چکا ہے۔

کابل ایئر پورٹ پر ہولناک حملے کی ذمے داری شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ (داعش، خراساں) نے قبول کی تھی جس کے بعد صدر بائیڈن نے بدلہ لینے کا اعلان کیا تھا۔

جمعے کو امریکہ نے فصائی حملے سے افغان صوبے ننگرہار میں داعش کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔

کیا افغانستان میں طالبان کو داعش سے خطرہ ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:46 0:00

ہفتے کو امریکی محکمہ دفاع (پینٹاگان) کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ اس کارروائی میں داعش کے دو اہم کمانڈر مارے گئے ہیں۔

ترجمان پینٹاگان جان کربی نے ایک میڈیا بریفنگ میں فضائی کارروائی سے متعلق کہا کہ اس کارروائی میں داعش کے دو ہائی پروفائل کمانڈر ہلاک اور ایک زخمی ہوا ہے جب کہ اس کارروائی میں کوئی سویلین ہلاکت نہیں ہوئیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ اس حملے کا منصوبہ ساز اور سہولت کار مارے گئے ہیں جب کہ ایک زخمی ہوا ہے۔

اس کارروائی کے بعد ایک بیان میں صدر بائیڈن نے واضح کیا تھا کہ یہ کارروائی آخری نہیں ہے۔ "ہم اس بہیمانہ حملے میں ملوث عناصر کا پیچھا کریں گے اور انہیں بھاری قیمت چکانا ہو گی۔"

ترجمان طالبان ذبیح اللہ مجاہد نے خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے گفتگو میں امریکی فضائی حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے افغان سرزمین پر حملہ قرار دیا تھا۔

ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ طالبان، منگل کو امریکی فوج کے انخلا کے بعد کابل ایئر پورٹ کا مکمل انتظام سنبھالنے کے لیے تیار ہیں۔


اس خبر میں وائس آف امریکہ کی وائٹ ہاؤس کے لیے نمائندہ پیٹسی وڈاکوسوارا نے معاونت کی۔ کچھ معلومات خبر رساں اداروں 'ایسوسی ایٹڈ پریس'، 'رائٹرز' اور 'اے ایف پی' سے حاصل کی گئیں۔

XS
SM
MD
LG