ہیٹی کے المیے پر امریکہ کے متعدد اخبارات نے مزید تبصرےشائع کئے ہیں۔
وال سٹریٹ جرنل نے ہفتے کے روز اپنے اداریہ “ہیٹی کے لئے پناہ گاہ” میں لکھا ہے کہ مسٹر اوباما نے انسان دوستی کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے نہایت مناسب اقدام کا اعلان کیا ہے کہ ہیٹی کے جو باشندے امریکہ میں غیر قانونی طور پر مقیم تھے انہیں عارضی پناہ دے دی جائے گی۔
اس طرح تیس ہزار کے قریب افراد کو، جو ملک بد ہونے والے تھے، اب مزید اٹھارہ ماہ یہاں رہنے کا موقع مل جائے گا۔
اخبار لکھتا ہے کہ اس اقدام کے ناقدوں کو یہ احساس ہونا چاہئیے کہ اس وقت ہیٹی ایسی جگہ نہیں ہے جہاں کسی کو بھیجا جا سکے۔ یہ لوگ پہلے ہی وہاں کی غربت اور طوائف الملوکی سے تنگ آ کرامریکہ بھاگ آئے تھے۔
اخبار مزید لکھتا ہے کہ ہم تو کہیں گے انہیں یہاں مستقل ہی رہنے دیا جائے۔ یہاں ہیٹی کے بہت سے تارکین وطن ہیں اور ان کی کامیاب زندگیوں سے ثابت ہوتا ہے کہ خود ہیٹی کے لوگوں میں کوئی خرابی نہیں۔ اگر ہے تو وہ وہاں حکومت کی بدعنوانیوں، غیر محفوظ زندگی اور حقوق انسانی کے فقدان میں ہے۔ خیر انہیں یہاں عارضی پناہ دی جائے یا مستقل، یہ بحث تو بعد میں ہو سکتی ہے۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ امریکہ نے اپنی اسی روایتی فراخ دلی کا مظاہرہ ایک بار پھر کیا ہے جیسی وہ ہمیشہ سے کرتا آیا ہے۔
اخبار لاس اینجلس ٹائمز نے لکھا ہے کہ ہیٹی کو شروع سے بدنصیب کہا جاتا رہا ہے۔ لیکن اس کے باوجو اس کے عوام نے:
مر کے پھر ہوتا ہے پیدا یہ جہان ِ پیر دیکھ
کی تصویر پیش کی ہے، بلکہ اپنی عظمت کا ثبوت بھی بار بار دیا ہے۔ بدترین زلزلہ اس کی تازہ ترین مثال ہے۔
جب 1791 میں غلاموں نے علم ِ بغاوت بلند کر کے 1804 میںفرانس سے آزادی حاصل کی تو انہوں نے دنیا میں پہلی سیاہ فام مملکت قائم کی۔ کہا جاتا تھا کہ یہ ملک چلے گا نہیں۔ آخر ہیٹی کے دلیر اور جیالے شہریوں کا قصور کیا تھا کہ ان کے بارے میں یوں سوچا جاتا؟ ایک تو یہ کہ وہ سیاہ فام تھے، دوسرے چند ایک عیسائیوں کو چھوڑ کر اکثریت کا دین وہ افریقی روایات تھیں، جن میں جادو ٹونا بھی شامل تھا۔
ان بدنصیبوں نے حال ہی میں اپنے لیڈروں کی بدعنوانیوں کےخلاف آواز اٹھائی تھی۔ وہ کہتے تھے کہ ہماری ماحولیات ایسی خراب ہیں کہ ہم باقی دنیا کے ساتھ چلنےکے قابل نہیں۔ ان تمام مصائب کے باوجود ملک لشٹم پشٹم چلتا ہی رہا۔
منگل کے تباہ کن زلزلے کے نتیجے میں ان کے بنیاد پرست لوگ مثلاً پَیٹ رابرٹسن کا کہتے ہیں کہ ہیٹی پر یہ مصیبت اس بد دعا کے نتیجے میں آئی جو فرانس کے اثر سے نکلنے کے باعث نازل ہوئی تھی۔ ان کے علاوہ ڈاکٹر پال فارمر کا کہنا ہے کہ ہیٹی اور اس کے عوام کے بارے میں طرح طرح کی قیاس آرائیاں جاری ہیں جنھیں میڈیا ہوا دے رہا ہے۔ بیچارے عوام اپنے بارے میں یہ سن سن کر آخرکار اس پر یقین کرنے لگے ہیں کہ ان پر کسی بددعا کا اثر ہے۔
حالیہ المیہ بے حد ہولناک اور دور رس ہے۔ تاہم اس کے عوام کی دلیری اور عظمت دو صدیوں سے بھی زیادہ عرصے سے بار بار ثابت ہو چکی ہے۔ یہ ان لوگوں کی اولاد ہیں جنہوں نے غلام کے سفاک اور غیر انسانی نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا تھا۔
آج بھی بہت سے لوگوں کے سروں پر چھت نہیں، نہ ہی سونے کی کوئی جگہ ہے لیکن آپ دیکھیں گے کہ وہ نہ صرف سوئیں گے بلکہ مصائب کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کے لئے جاگ بھی اٹھیں گے۔
یہ تھے ایمی وِلے نیٹز کے خیالات جو لاس اینجلس ٹائمز میں شائع ہوئے ہیں۔
سٹیفن جانسن نے وال سٹریٹ کے اداریہ میں لکھا ہے کہ ہیٹی کو جہاں وہ زلزلے سے پہلے تھا، اسی حالت میں پہنچا دینا کافی نہیں ہے۔ کیونکہ اس کا مطلب ہوگا کہ وہ ایک ایسی ناکام ریاست بن جائے گا جو مسلسل غیر ملکی امداد پر بھروسہ کرتی ہے۔ بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ وہاں بنیادی سیاسی اور ثقافتی ڈھانچہ استوار کیا جائے اور عوامی ادارے قائم کئے جائیں۔ اس کے علاوہ لوگوں کی ایسی ذہنیت مرتب کی جائے جس کے تحت انہیں احساس ہو کہ وہ کس قدر لا محدود صلاحیتوں کے مالک ہیں۔
ہم ہمیشہ سے بدنصیب ییں؛ ہیٹی میں عوامی ذہنیت
دراصل وہاں لوگ لا محدود صلاحیتوں کے مالک ہیں