رسائی کے لنکس

افغانستان کو معاشی تباہی سے بچانے کے لیے مؤثر اقدامات کی فوری ضرورت ہے، اقوام متحدہ


(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

عالمی ادارے کے فلاحی سرگرمیوں کے ادارے کے سربراہ نے اس پر دکھ کا اظہار کیا ہے کہ ہم افغانستان میں معاشی تباہی ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں، لیکن اسے روکنے کے لیے کچھ نہیں کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ دراصل یہی وقت ہے کہ بین الاقوامی برادری فوری اور مؤثر اقدام کرے، ورنہ اس کے بعد بہت دیر ہو چکی ہو گی۔

مارٹن گرفتھ نے جمعرات کو ایسوسی ایٹڈ پریس کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ عطیہ دہندگان ملکوں کو چاہیے کہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر افغان عوام کو ہنگامی امداد دینے کے علاوہ تعلیم، صحت، بجلی کی بنیادی سہولتوں کو جاری رکھنے اور سرکاری ملازمین کو تنخواہ دینے میں مدد کے ساتھ ساتھ معیشت میں نقدی فراہم کریں تاکہ بینکاری کا نظام چل پڑے جو اس وقت بالکل بند پڑا ہے۔

بقول ان کے، ''ہم معاشی تباہی ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں، جس میں آئے روز اضافہ ہوتا جا رہا ہے''۔

گرفتھ نے کہا کہ رواں سال کے اواخر تک نقدی کی دستیابی کا معاملہ حل کیا جانا ضروری ہے، تاکہ جاری موسم سرما کے دوران خدمات انجام دینے والے ملازمین کو تنخواہیں مل سکیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ اپنے پچھلے بیان پر نظرثانی کر رہے ہیں جس میں انھوں نے یہ رائے دی تھی کہ انسانی امداد فراہم کر کے افغانستان کی معاشی صورت حال میں بہتری لائی جا سکتی ہے، کیونکہ اب حالات بد سے بدتر ہو چکے ہیں۔

انھوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ملک میں 40 لاکھ بچے اسکول نہیں جا رہے ہیں جب کہ بہت جلد اس میں مزید 90 لاکھ بچوں کا اضافہ ہو جائے گا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اگست سے اب تک 70 فی صد اساتذہ کو تنخواہ نہیں مل سکیں۔ بقول ان کے، اگر یہ صورت حال جاری رہی تو پھر یہ بات کرنے والا بھی کوئی نہیں ہو گا کہ لڑکیوں کو اسکول کیوں نہیں جانے دیا جاتا، پھر یہ باتیں ثانوی حیثیت اختیار کر لیں گی۔

گرفتھ کے بقول، ''اس لیے، آج میرا پیغام یہ ہو گا کہ معاشی تباہی کے نتائج سے بچنے کا بہتر طریقہ یہ ہو گا کہ ہم اٹھ کھڑے ہوں اور فوری اقدام کریں''۔

افغانستان میں غذائی قلت کا شکار بچے
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:00 0:00

بیس سالہ لڑائی کے خاتمے پر جب ملک سے امریکی اور نیٹو کی افواج کا انخلا جاری تھا، طالبان نے افغانستان کا کنٹرول سنبھالا۔ طالبان کی فوج 15 اگست کو کابل میں داخل ہوئی، جب کہ ملک کی قومی فوج نے کوئی مزاحمت نہیں کی اور اس وقت کے افغانستان کے صدر اشرف غنی ملک سے فرار ہو گئے۔

ابتدائی طور پر طالبان نے اعلان کیا کہ وہ رواداری پر مبنی پالیسیوں پر عمل پیرا ہوں گے اور جامع حکومت تشکیل دیں گے، خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کی پاسداری کریں گے۔ عملاً ہوا یہ ہے کہ انھوں نے ایسی حکومت تشکیل دی ہے جس میں صرف مردوں کو تعینات کیا گیا ہے، جس پر بین الاقوامی برادری کو سخت مایوسی ہوئی۔

افغانستان کی معیشت کا انحصار امداد پر رہا ہے اور جب طالبان نے اقتدار سنبھالا تو فوری طور پر ملک تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا۔ افغانستان کے مرکزی بینک کے 9 ارب ڈالر کے غیر ملکی کرنسی کے ذخائر، جن میں سے زیادہ تر امریکہ میں جمع تھے، انھیں منجمد کر دیا گیا، جب کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے 45 کروڑ ڈالر کی رقم اس لیے بلاک کر دی، کیونکہ نئی حکومت کے بارے میں کچھ واضح نہیں تھا۔

طالبان نے اب غیر ملکی کرنسی کی لین دین پر پابندی عائد کر دی ہے اور امریکہ سے مطالبہ کیا ہے کہ افغانستان کے بیرونی اثاثوں پر عائد پابندیاں ہٹا لی جائیں، تاکہ حکومت اساتذہ، معالجوں اور سرکاری شعبے کے ملازمین کو تنخواہیں دے سکے۔

گرفتھ نے کہا کہ اقوام متحدہ نے امریکہ اور دیگر عطیہ دہندگان پر زور دیا ہے کہ وہ اعانت فراہم کریں جو اقوام متحدہ کے اداروں کے ذریعے آگے بڑھائی جائے گی، تاکہ ضرورت مند عوام کو براہ راست مدد میسر آ سکے۔ یہ رقوم طالبان کے توسط سے تقسیم نہیں کی جائیں گی۔

XS
SM
MD
LG