پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے علاقے تخت بائی کے کھنڈرات تاریخی اعتبار سے بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ وقت کے سفر نے اگرچہ ان سے ماضی کی عظمت اور شان و شوکت تو چھین لی ہے، لیکن انہیں دیکھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ لگ بھگ دو ہزار سال قبل اس خطے میں آباد بودھ قوم فن تعمیر کی باریکیوں سے کس قدر آشنا تھی اور انہوں نے کیسی کیسی عالیشان تعمیرات کیں تھیں۔
تخت بائی کے دو ہزار سال پرانے کھنڈرات

9
مورخین کے مطابق خیبرپختونخوا کا ضلع مردان، پشاور اور وادی سوات بودھ مت کے پیروکاروں کا ایک بڑا مرکز تھے اور یہاں نہ صرف دور دراز علاقوں سے لوگ علم حاصل کرنے آتے تھے بلکہ فارغ التحصیل ہو کر اسے دور دور تک پھیلاتے تھے۔

10
تاریخ دانوں کے مطابق تخت بائی میں قائم علمی مراکز میں حصول علم کے لیے آنے والوں کا تعلق چین، افغانستان، وسط ایشیا اور دیگر ممالک سے تھا۔ اب بھی ان کھنڈرات کو دیکھنے کے لیے آنے والوں میں سے اکثر سیاحوں کا تعلق چین، کوریا اورجاپان سے ہوتا ہے۔