رسائی کے لنکس

شب بیداری کا مرض عام: مطالعاتی رپورٹ


ایک برطانوی سروے کے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ ہر 10 میں سے چھ برطانوی باشندے نیند کی کمی یا بے خوابی کا شکار ہیں

جدید سائنس اور ٹیکنالوجی نے انسان کو جہاں آسائشوں اورسہولیات کا عادی بنا دیا ہے، وہیں اس دور میں رہنے والوں کی نیندیں بھی اڑا کر رکھ دی ہیں، جنھیں اپنی الیکٹرونک ڈیوائسسز سے اس قدر لگاؤ ہوچکا ہے کہ اب اس کے بغیر ایک پل کاٹنا مشکل لگتا ہے۔ ایسے میں جس کا حال پوچھیں وہ شب بیداری کا مارا ہوا معلوم ہوتا ہے۔

لوگوں کی چہروں کی رونقین اسمارٹ فونز کی نیلی روشنیوں میں کہیں گم ہو کر رہ گئی ہیں اور آہستہ ہستہ اس مرض میں افاقہ آنے کے بجائے اس کی علامات شدید تر ہوتی جا رہی ہیں۔
ان دنوں جو روایت عام ہو چلی ہے اس کے مطابق، اب لوگ بالامشافعہ ملاقات کے بجائے فاصلے سے ملنا زیادہ پسند کرنے لگے ہیں۔ دنیا کے طول وارض میں بسنے والوں کے لیے خیالی دنیا میں ملاقات کے لیے دن اور رات کی کوئی قید نہیں ہے۔ نتیجتاً شب بیداری کا مرض دنیا کے اس کونے سے اس کونے تک ایک وبائی شکل کی صورت میں پھیلتا جارہا ہے۔
ایک سروے کے اعداد وشمار سے پتا چلتا ہے کہ ، ہر 10میں سے 6 برطانوی باشندے نیند کی کمی یا بے خوابی کا شکار ہیں اور صرف ایک سال کی مدت کے دوران نیند کی کمی کا شکار افراد کی تعداد میں 50 فیصد اضافہ ہوا ہےجس کے لیے ماہرین الیکٹرانک ڈیوائسسز، آئی پیڈ، اسمارٹ فونز، ٹیبلیٹ کو مورد الزام ٹہراتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ رات کو سونے سے ایک گھنٹہ یا دوگھنٹے پہلے تک موبائل فونز اور لیپ ٹاپ ,آئی پیڈ جیسی ڈیوائسسز کا استعمال انسان کی نیند میں خلل اور بے سکونی پیدا کرتا ہے۔ اسکرین سے خارج ہونے والی نیلی روشنیاں غنودگی کو کم کرتی ہیں اورسونا دشوار بنا دیتی ہیں۔
ایک بالغ فرد کی اوسط نیند کا دورانیہ ساڑھے سات گھنٹے سے آٹھ گھنٹے طویل ہونا چاہیئے۔ لیکن سات گھنٹے سےکم نیند کو مسائل کے ساتھ منسلک کیا جاتا ہے۔
'یوگو' کے ایک حالیہ سروے میں 2,149، بالغان سے ان کی رات کے وقت کی مصروفیات یا عادتوں کے حوالے سے سوالات پوچھے گئے جس کے نتیجے سے معلوم ہوا کہ 59 فیصد افراد کی رات کی نیند کا دورانیہ سکڑ کر 7 گھنٹوں سے بھی کم رہ گیا ہے جو کہ نیند کی موجودہ سفارشات سے کم ہے جبکہ پچھلے برس کے سروئے کے اعدادوشمار کے موازنہ کیا جائے تو یہ تعداد 39 فیصد کے لگ بھگ تھی۔
سروے سے پتا چلا کہ ، بیڈ میں جانے سے ایک یا دو گھنٹے قبل گیجٹس استعمال کرنے والے افراد کی تعداد 79 فیصد تک جا پہنچی ہے گذشتہ برس کے مقابلے میں اس رجحان میں 20 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
جائزہ رپورٹ سے معلوم ہوا کہ لوگوں کی آنکھوں سے میٹھے خواب بھی دور ہو چکے ہیں اور چند ہی لوگوں کو اچھے خواب آتے ہیں۔ اس سروے میں حصہ لینے والے صرف 10 فیصد افراد نے بتایا کہ انھیں گہری نیند میں میٹھے خواب آتے ہیں۔
پروفیسر وائزمین جن کا تعلق 'ہارٹفورڈ شائر یونیوسٹی' سے ہے اس جائزے کے حوالے سے اپنا تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کا نیند کی کمی کا شکار ہونا صحت کے مختلف مسائل مثلا ذیا بیطس، موٹاپا اور کینسر جیسے موذی مرض کا خطرہ پیدا کر سکتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ گیجٹس سے خارج ہونے والی ایل ای ڈی روشنیاں یا نیلی روشنیاں ہماری جسم کی قدرتی گھڑی کے توازن کو بگاڑ دیتی ہیں۔ مصنوعی روشنی کی موجودگی میں گہری نیند کے باعث بننے والے ہارمون، 'میلا ٹونین' کی مقدار کم ہو جاتی ہے جس سے بے خوابی کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ اسی لیے ضروری ہے کہ سونے سے قبل ایسی ڈیوائسسز کے استعمال سے پر ہیز کیا جائے۔
انھوں نے کہا کہ اچھی اور گہری نیند کے متلاشی افراد اگر اگلے روز کی مصروفیات کی ایک فہرست بنا لینی چاہیئے اس طرح دماغ پر زیادہ بوجھ نہیں ہوگا یا پھر رات میں اگر کیلا کھا لیا جائے تو اس سے بھی افاقہ حاصل ہو سکتا ہے کیونکہ کیلے کارپوہائیڈریٹ اور پٹھوں کو آرام پہنچانے والی معدنیات سے مالا مال ہے۔
اگر پھر بھی نیند نہیں آتی ہے تو دماغ کو تھکا کر سلانے کے لیے ضروری ہے کہ کچھ دیر کے لیے حروف تہجی سے جانوروں کے نام دہرائے جائیں یا پھر جگسا پزل بنانا بھی نیند لانے کے حربے کے طور پر کامیاب خیال کیا جاتا ہے۔

XS
SM
MD
LG