بنگلہ دیش میں اموات کے احتساب کو یقینی بنانے کے لیے مکمل اور شفاف تحقیقات ضروری ہیں: امریکہ
امریکہ نے پیر کو بنگلہ دیش میں مظاہرین کے خلاف مزید کریک ڈاؤن کے بجائے عبوری حکومت کی تشکیل پر فوج کی تعریف کی ہے۔ تاہم واشنگٹن نے کہا ہے کہ امریکہ کو "اختتام ہفتہ اور گزشتہ ہفتوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، ہلاکتوں اور زخمی ہونے کی رپورٹوں پر شدید صدمہ ہوا ہے۔
محکمہ خارجہ کی معمول کی بریفنگ میں ترجمان میتھیو ملرنے کہا، "یہ ضروری ہے کہ ہمارے پاس ان اموات کے لیے احتساب کو یقینی بنانے کے لیے مکمل اور شفاف تحقیقات ہوں۔"
ملر نے کہا کہ امریکہ نے ایسی رپورٹیں دیکھی ہیں کہ فوج نے طلباء کی قیادت میں ہونے والے مظاہروں پر مزیدکریک ڈاؤن کرنے کے لیے دباؤ کو مسترد کر دیا۔
انہوں نے کہا،"اگر یہ در حقیقت درست ہے کہ فوج نے قانونی طور پر مظاہرہ کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کے مطالبات کی مزاحمت کی تھی، تو یہ ایک مثبت پیش رفت ہو گی۔"
بنگلہ دیش میں بغاوتوں اور فوجی انقلاب کی تاریخ: 1975-2024
بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ نے کئی ہفتوں کے پرتشدد مظاہروں کے بعد استعفیٰ دے دیا ہے اور ملک سے چلی گئی ہیں۔ جس کا اعلان پیر کو آرمی چیف کے ٹیلی ویژن پر خطاب میں کیا گیا۔
اس تبدیلی نے ایک بار پھر ملک کی سیاسی ہلچل اور بغاوتوں کی تاریخ پر توجہ مرکوز کر دی ہے، جس کا آغاز 1975 میں ملک کے پہلے وزیر اعظم شیخ مجیب الرحمان کےایک فوجی بغاوت میں قتل سے ہوا تھا۔
مستعفی ہونے والی وزیراعظم حسینہ کے والد، اورملک کے پہلے وزیر اعظم شیخ مجیب الرحمان کو ان کے خاندان کے بیشتر افراد سمیت ایک فوجی بغاوت میں قتل کر دیا گیا تھا جس کے نتیجے میں بنگلہ دیش میں طویل عرصے تک فوجی حکمرانی کا آغاز ہوا۔۔ اسی سال دو اور بغاوتیں نومبر میں جنرل ضیاء الرحمن کے اقتدار پر قبضے کے ساتھ ختم ہوئیں۔
بنگلہ دیش نے جنوری 2010 میں ان پانچ سابق فوجی عہدے داروں کو، جنھوں نے 1975ء میں قوم کے آزادی کے قائد کو قتل کیا تھا، پھانسی پر لٹکا دیا تھا۔
قتل کا مشہور مقدمہ مقتول قائد کی بیٹی شیخ حسینہ کی حکومت میں چلا۔ وہ اس سے ایک سال قبل ملک کی دوسری مرتبہ وزیرِ اعظم منتخب ہوئی تھیں۔