امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں بہار کی آمد کے ساتھ ہی مختلف تقاریب اور میلے منعقد ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور اس موقع پر یہاں کی یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم پاکستانی بھی طالب علم بھی مختلف تفریحی پرگرامز ترتیب دیتے ہیں، جن کا مقصد پاکستانی کمیونٹی کو اکھٹے ہونے کا موقع فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ اور ان کی فلاح وبہبود کے کاموں میں حصہ لینا بھی ہوتا ہے۔ اسی سلسلے سے گذشتہ دنوں واشنگٹن کے مضافات میں واقع جارج میسن یونیورسٹی میں پاکستانی طالب علموں نے ایک محفل سجائی۔
ٹاڈ شے ایک امریکی ہیں اور ان کا تعلق واشنگٹن ڈی سی کے نواحی علاقے میری لینڈ سے علاقے سے ہے۔ وہ پاکستان میں ایک سماجی کارکن کی حیثیت سے کافی عرصے سے کام کر رہے ہیں ، اور یہاں جارج میسن یونیورسٹی میں انہوں نے پاکستانی طلبہ کے ساتھ مل کر بہار کا استقبال دل دل پاکستان کے نغمے کے ساتھ کیا۔
واشنگٹن کے نواحی علاقوں میں پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے ، اور یونیورسٹیوں میں بہت سے طلبہ زیر تعلیم ہیں ۔ جن میں سے اکثر یہاں ہی پیدا ہوئے ہیں۔ ایسے طالب علموں کو پاکستانی ثقافت اور کلچر سے قریب رکھنے کے پاکستانی طلبہ کی تنظیمیں ایسی تقریبات منعقد کرتی رہتی ہیں جہاں پاکستانی امریکن طلبہ کو پاکستان کے بارے میں جاننے کا زیادہ سے زیادہ موقع ملے۔
تقریب میں شامل ایک پاکستانی کا کہناتھا کہ یہاں کافی پاکستانی کمیونٹی ہے ۔ یہاں پیدا ہونے والے بچے پاکستان کے حالات کے بارے میں بہت کچھ جاننا چاہتے ہیں اور ہم انھیں اس حوالے سے معلومات فراہم کرتے ہیں۔
اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی کمیونٹی کے مدد کے لیے سرگرم غیر سرکاری ادارے بھی ان تقریبات میں شریک ہوکر یہاں اور پاکستان میں موجود ضرورت مند وں کی مدد کے لیے لوگوں کو متحرک کرتے ہیں۔ سیدہ عائشہ ایک مقامی خیراتی ادارے کے لیے رضاکارانہ طور پر کام کرتی ہیں
ہیں۔ ان کا کہناتھا کہ ایسی تقریبات کے ذریعے ہمیں یہ موقع ملتا ہے کہ ہم یہاں لوگوں کو ان اداروں کے بارے میں بتائیں ۔۔
اسی مناسبت سے پاکستانی طلبہ نے ٹاڈ شے کو اپنی اس تقریب میں مدعو کیا ۔ وہ گزشتہ چھ سال سے پاکستان کے شمالی علاقوں میں زلزے کے بعد سے وہاں امدادی کام کررہے ہیں۔ ان کا خیراتی ادارہ پاکستانی کشمیر میں صحت اور تعلیم کی سہولتیں فراہم کررہا ہے۔ ۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ یہ کام مقامی پاکستانی امریکن ڈاکٹروں کی مدد سے کررہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ میں 2005ء کے زلزلے کے بعد پاکستانی امریکی ڈاکٹروں کے ایک گروپ کے ساتھ متاثرہ علاقوں میں گیا تھا۔ لیکن وہاں کے حالات دیکھ کر وہیں رک گیا اور ابھی تک وہاں کام کررہا ہوں۔
ٹاڈ کا کہنا ہے کہ پاکستانی آبادی کا 43 فیصد 15 سال سے کم عمر بچوں پر مشتمل ہے۔ اور انھیں یہاں یہ سب دیکھ کر لگ رہا ہے کہ یہاں بسنے والے پاکستانی اپنے بھائیوں کا درد سمجھتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ میں امریکہ کی مختلف یونیورسٹیوں میں جن پاکستانی نژاد طالب علموں سے ملا، تومجھے لگا کہ وہ پاکستان کی امید ہیں۔ وہ پاکستان کو بدل سکتے ہیں۔ ان کے اندر پاکستان کے حالات بدلنے کی امنگ اور جذبہ موجود ہے۔
ٹاڈ کا کہنا ہے کہ وہ یہاں پاکستانی امریکی بچوں کے ساتھ دل دل پاکستان گا کر پاکستان سے اپنی محبت کا اظہار کررہے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ لوگ انھیں امریکن پاکستانی کہتے ہیں۔