برطانیہ کے معروف اشاعتی ادارے 'آکسفورڈ یونیورسٹی پریس' نے بچوں کی کتابیں میں خنزیر یا اس کے گوشت سے تیار کی جانے والی چیزوں کے بارے میں لکھنے پر پابندی عائد کردی ہے۔
پریس نے برطانوی اسکولوں کے نصاب میں رائج کتابوں کے مصنفین سے کہا ہے کہ وہ اپنی تحریروں میں ثقافتوں کے فرق کو مدنظر رکھتے ہوئے خنزیر یا خنزیر کے گوشت سے تیار کی جانے والی اشیا کے بارے میں لکھنے سے گریز کریں۔
برطانوی روزنامے 'انڈیپینڈنٹ' کے مطابق 'آکسفورڈ یونیورسٹی پریس' کی طرف سے شائع شدہ گائیڈ لائن میں بچوں کی کتابوں میں خنزیر کے بارے میں لکھنے پر پابندی عائد کی گئی ہے جو اسلام میں حرام ہے۔
اخبار کے مطابق، ذرائع کا کہنا ہے بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خنزیر سے متعلق آکسفورڈ یونیورسٹی کی جانب سے اپنی مطبوعات میں خنزیر کے تذکرے پر پابندی عائد کرنے کا مقصد یہودیوں اور مسلمانوں میں خنزیر سے متعلق پائے جانے والے تصورات کا احترام ہے یا پھر اس اقدام کا مقصد لوگوں کی دل آزاری کا خوف بھی ہو سکتا ہے۔
مصنفین سے کہا گیا ہے کہ وہ مسلمان ممالک میں ثقافتی تنوع اور مقامی رجحانات کا خیال رکھتے ہوئے اپنی تحریروں میں مسلم معاشروں میں ممنوع سمجھی جانے والی اشیا کا ذکر نہ کریں تاکہ یہ کتابیں زیادہ سے زیادہ تعداد میں مسلم دنیا میں برآمد کی جاسکیں۔
آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں شائع ہونے والا تعلیمی مواد دنیا کے 150 سے زائد ممالک میں فروخت ہو رہا ہے اور مختلف معاشروں میں اس کی حساسیت پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
انھوں نے کہا کہ دنیا بھر کے 49 مسلمان ملکوں میں نوجوان کی اکثریت ہے جو تعلیمی مواد کی برآمد کے لیے اہم ترین منڈیاں ہیں۔
اس اقدام پر برطانیہ کی کنزرویٹیو جماعت کے رہنما فلپ ڈیوس نے ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ برطانوی پبلشر کی طرف سے دوسروں کی ثقافتوں کو اشاعت میں شامل کیا جارہا ہے جو نامناسب عمل ہے۔
یاد رہے کہ 2013ء میں حکومت برطانیہ نے تعلیمی مواد کی برآمدات کو وسعت دینے کے لیے ایک حکمت عملی بنائی تھی۔ برطانوی معیشت میں تعلیمی مواد کی برآمد کا حجم 17.5ارب پونڈ کے برابر ہے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی پریس، آکسفورڈ یونیورسٹی کا ایک شعبہ ہے جو کیمبرج یونیورسٹی پریس کے بعد دنیا کا دوسری قدیم چھاپہ خانہ ہے۔
آکسفورڈ پریس ہر سال 6000 نئی کتابیں شائع کرتا ہے جنھیں دنیا کے 150 ممالک میں فروخت کیا جاتا ہے جبکہ اس کی تجارتی سرگرمیوں سے آکسفورڈ یونیورسٹی سالانہ لاکھوں پونڈز کا منافع کماتی ہے۔