بھارت کے نئے ہائی کمشنر گوتم بمبانوالے منگل کو پاکستان پہنچے ہیں۔ اُنھوں نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ وہ دوستی کا پیغام لے کر آئے ہیں۔
بھارتی ہائی کمشنر نے کہا کہ ’’ہم دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں اور پاکستان میں قیام کے دوران یہ ہی میری کوشش ہو گی‘‘۔
یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا جب حال ہی میں پاکستانی سرحد کے قریب بھارت کے علاقے پٹھان کوٹ میں فضائیہ کے اڈے پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد نئی دہلی کی طرف سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ اسلام آباد اس حملے میں ملوث عناصر کے خلاف حتمی کارروائی کرے۔
واضح رہے کہ پٹھان کوٹ میں فضائیہ کے اڈے پر حملے کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کے تناظر میں پاکستان اور بھارت کے خارجہ سیکرٹری سطح کے مذاکرات کے انعقاد سے متعلق بھی شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
پاکستانی حکام کے مطابق دونوں ملکوں کے خارجہ سیکرٹری سطح کے مذاکرات رواں ماہ کی 15 تاریخ کو اسلام آباد میں طے پائے تھے، لیکن بھارت کی طرف سے تاحال کسی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا۔
پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ خطے میں امن کے لیے ضروری ہے کہ دونوں ملک بات چیت کا راستہ اختیار کریں۔
’’اس خطے کا جو امن ہے اس کی نہ صرف پاکستان کو ضرورت ہے بلکہ بھارت کو بھی اس کی ضرورت ہے بلکہ دنیا اور اس پورے خطے کے عوام کی ضرورت ہے۔ لیکن امن لانے کے لیے مذکرات کا ہونا ضروری ہے۔ اب مذکرات کا عمل کس نے خراب کر رکھا ہے۔ اگر بھارت کو دہشت گردی کو مسئلہ ہے تو دہشت گردی کا مسئلہ پاکستان کو بھی (درپیش) ہے۔ تو بہتر ہوتا کہ بھارت اور پاکستان مل کر ایک مشترکہ چیلنج (سے نمٹتے جس کے لیے) ہمارے پاس (سابق صدر) پرویز مشرف دور کا بنایا ہوا انسداد دہشت گردی کا ایک طریقہ کار موجود ہے۔ اگر پٹھان کوٹ کا واقعہ ہوتا ہے تو وہی بات ہو گئی کہ ڈائیلاگ کا عمل پھر غیر یقینی کا شکار ہے۔‘‘
بھارت کی طرف سے یہ کہا گیا کہ پٹھان کوٹ حملے کے بارے میں پاکستان سے معلومات کا تبادلہ کیا گیا ہے۔
پاکستان کی اعلیٰ سیاسی و عسکری قیادت کے ایک حالیہ اجلاس کے بعد یہ بیان سامنے آچکا ہے کہ پاکستان تحقیقات کے سلسلے میں بھارت سے ہر ممکن تعاون کرے گا۔
ایوان بالا یعنی سینیٹ کے رکن لفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) عبدالقیوم نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان بھارت سے تعاون کے لیے پرعزم ہے۔
’’اگر ہم (بات چیت کے) اس کو روک دیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ان غیر ریاستی عناصر اور امن کے دشمنوں کے ہاتھوں میں کھیل جائیں گے ۔ یہ ہمارا موقف ہے اور ہم نے بھارت کو بھی کہا ہے کہ ہمیں اس کو جاری رکھنا چاہیئے اور ہم پر امید ہیں کہ کیونکہ اس کے برعکس کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کی اسے (مذاکرات کا عمل) کو جاری رکھنا چاہیئے اس سے ایک سخت پیغام جائے گا کہ دونوں فریق سنجیدگی سے کوشش کر رہے ہیں بھارت نے جو ہمیں معلومات دی ہیں ہم ہر ممکن کوشش کر رہے کر رہے ہیں کہ تحقیق کریں‘‘
تاحال پاکستان کی طرف سے باضابطہ طور یہ نہیں بتایا گیا کہ پٹھان کوٹ میں فضائیہ کے ایک اڈے پر دہشت گرد حملے کے بعد بھارت کی طرف سے فراہم کردہ معلومات پر تحقیقات کا عمل کہاں تک پہنچا۔
پٹھان کوٹ میں فضائیہ کے اڈے پر یہ حملہ ایک ایسے وقت ہوا، جب دونوں ملکوں کے تعلقات میں کچھ بہتری آئی تھی اور توقع کی جا رہی تھی کہ پاکستان اور بھارت کے خارجہ سیکرٹری سطح کے مذاکرات کے بعد اس میں مزید بہتری آئے گی۔
دسمبر کے اوائل میں اسلام آباد میں ’ہارٹ آف ایشیا کانفرنس‘ کے موقع پر بھارت کی وزیر خارجہ سشما سوراج بھی پاکستان میں آئی تھیں اور اُنھوں نے اس موقع پر پاکستانی وزیراعظم کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز سے دوطرفہ ملاقات میں پاک بھارت مذاکرات کی بحالی کا اعلان کیا گیا تھا۔
اُن کے اس دورے کے بعد 25 دسمبر 2015 کو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے کابل سے نئی دہلی واپس جاتے ہوئے پاکستان میں مختصر قیام کیا اور اپنے ہم منصب نواز شریف سے لاہور میں ملاقات کی۔
2004ء کے بعد بھارت کے کسی بھی وزیراعظم کا پاکستان کا یہ پہلا دورہ تھا، اس اچانک اور غیر معمولی دورے کو بھی دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری کے لیے اہم قرار دیا جا رہا تھا۔