امریکی صدارتی انتخابات کے بارے میں، ڈاکٹر اکبر احمد نے کہا ہے کہ ’’یہ الیکشن تاریخ میں ایکسلیریٹر کی طرح ہیں، جیسے کسی نے مسلمانوں کو سوئمنگ پول کے گہرائی والے حصے میں دھکا دے دیا ہو۔ مسلمان یا تو ڈوبیں گے یا تیر کر باہر نکلیں گے‘‘۔
ڈاکٹر اکبر ایس احمد برطانیہ اور آئرلینڈ میں پاکستان کے ہائی کمشنر رہ چکے ہیں، اور اِن دِنوں واشنگٹن کی ’امیرکن یونیورسٹی‘ میں پروفیسر ہیں۔ امریکہ اور برطانیہ میں آباد مسلمان ان کی تحقیق اور دستاویزی فلموں کا موضوع بنتے رہے ہیں۔
بقول اُن کے، ’’امریکی سیاست تاریخ کے نازک موڑ پر کھڑی ہے۔ اگر مسلمان پورے جوش و خروش سے اپنا ووٹ نہیں دیتے، تو الیکشن کے نتائج، کچھ بھی ہو سکتے ہیں‘‘۔
وہ کہتے ہیں کہ’’اس ملک میں امیدوار کبھی کبھار چھوٹے سے نمبر سے جیتتا یا ہارتا ہے‘‘، جیسا کہ امریکی ریاست فلوریڈا میں صدر بش اور ایل گور کے درمیان انتخابی معرکے میں ہوا تھا۔
ڈاکٹر احمد کے بقول ’’مسلمان کمیونٹی کے لئے ضروری چیز ہے اتفاق۔۔ڈائریکشن کہ کس طرف جانا ہے اور کمیونٹی میں، خصوصاً لیڈرشپ میں آگہی پیدا کرنا کہ یہ ہماری کمیونٹی ہے۔ ہم سبھی ایک کشتی میں ہیں۔ اگر یہ کشتی ڈوبتی ہے تو ہم سب ڈوبیں گے‘‘۔
ڈاکٹر اکبر احمد کے خیال میں امریکہ میں اثر و رسوخ بڑھانے کے راستے کیپیٹل ہل، وائٹ ہاؤس اور میڈیا سے ہو کر گزرتے ہیں۔ اور امریکہ کے مسلمان ووٹر کو سمجھنا ہوگا کہ اس ملک میں اپنی آواز سنانے کے لئے امریکہ کے تمام اہم اداروں کا حصہ بننا ضروری بن چکا ہے ۔
حمزہ سرور خان کے والدین پاکستان سے امریکہ آئے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’میری جنریشن امریکہ میں پیدا ہوئی، جس کا اس زمین سے ذاتی تعلق ہے۔ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ مسلمان کمیونٹی کو انتخابات کی اہمیت بتائیں‘‘۔ بقول ان کے، ’’ری پبلکن پارٹی کی سیاست اور ڈونلڈ ٹرمپ کے امیدوار بننے کی وجہ سے اور جس تقسیم کرنے والے انداز سے انتخابی مہم چلائی گئی ہے، مسلمان امریکیوں نے محسوس کیا ہے کہ اگر وہ اس ملک میں اپنا کوئی مستقبل چاہتے ہیں تو امریکی سیاسی نظام کا حصہ بننا ان کی ضرورت ہی نہیں، مذہبی ضرورت بن چکا ہے‘‘۔
حمزہ کے خیال میں امریکہ میں کم از کم 30 لاکھ مسلمان رجسٹرڈ ووٹر ہیں۔ چونکہ، بقول ان کے، ’’امریکہ میں کم ازکم چھ سے بارہ ملین مسلمان بستے ہیں۔ یہ مسلم امریکی ووٹر زیادہ تر اوہائیو، فلوریڈا، ورجینیا، نارتھ کیرولائنا، نواڈا جیسی امریکی ریاستوں میں بستے ہیں، جہاں ووٹوں کے معمولی سے فرق سے کوئی صدارتی امیدوار جیتتا یا ہارتا ہے‘‘۔
حمزہ کہتے ہیں کہ امریکہ کی ووٹ ڈالنے والی آبادی کا صرف ایک فیصد ہو کر بھی مسلمانوں کے ووٹ کا اثر دوررس ثابت ہوگا، کیونکہ وہائٹ ہاؤس وہی امیدوار پہنچے گا، جو ان ’سوئنگ سٹیٹس‘ میں کامیاب ہوگا، جہاں مسلمان ووٹر رہتے ہیں اور جہاں کا ووٹر سابقہ صدارتی انتخابات میں کبھی ریپبلکن اور کبھی ڈیمو کریٹک امیدوار کو ووٹ دیتا رہا ہے‘‘ ۔
مسلمان امریکی کمیونٹی میں یہ احساس جگانے کی کوششیں مساجد اور کمیونٹی اداروں کے تحت بھی کی جا رہی ہیں۔ پہلی بار مسلمان سرگرمی سے امریکہ میں ووٹر رجسٹریشن کی مہم چلاتے دیکھے گئے ہیں، جبکہ مساجد میں ہونے والے نماز جمعہ کے اجتماعات میں مسلمان ووٹروں کو ووٹ کی اہمیت سمجھانے کی کوششیں بھی جاتی ری ہیں۔