رسائی کے لنکس

بنگلہ دیشی وزیرِ اعظم کے استعفے کا مطالبہ؛ حکومتی حامیوں اور مظاہرین میں تصادم میں کئی افراد ہلاک


مظاہروں میں شدت اس وقت آئی تھی جب مظاہروں کے منتظمین نے دعویٰ کیا تھا کہ پولیس اور حکومت کے حامی گروہوں نے ان پر حملے کیے ہیں۔
مظاہروں میں شدت اس وقت آئی تھی جب مظاہروں کے منتظمین نے دعویٰ کیا تھا کہ پولیس اور حکومت کے حامی گروہوں نے ان پر حملے کیے ہیں۔

  • بنگلہ دیشی وزیرِ اعظم کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرنے کے لیے مظاہروں میں شدت آ گئی ہے۔
  • مظاہرین اور حکومت کے حامیوں کے درمیان جھڑپوں میں لگ بھگ ایک درجن ہلاک ہوئے ہیں۔
  • مظاہرین کا ایک بہت بڑا ہجوم لاٹھیاں اور ڈنڈے اٹھائے ہوئے ڈھاکہ کے مرکزی باغ اسکوائر میں جمع ہوا: پولیس
  • دیگر بڑے شہروں میں بھی مظاہروں میں حکومت کے حامیوں اور مظاہرین میں جھڑپیں ہوئی ہیں۔
  • بنگلہ دیش میں سرکاری ملازمتوں میں کوٹا نظام کے خلاف 15 جولائی کو طلبہ کی جانب سے شدید مظاہرے شروع ہوئے تھے۔
  • سپریم کورٹ کی جانب سے ملازمتوں کے کوٹے سے متعلق فیصلے کے بعد مظاہروں میں ٹھہراؤ آ گیا تھا۔

ویب ڈیسک—بنگلہ دیش میں وزیرِ اعظم شیخ حسینہ کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرنے والے مظاہرین اور حکومت کے حامیوں کے درمیان جھڑپوں میں لگ بھگ 55 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔

خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ ایک مشتعل ہجوم لاٹھیاں اور ڈنڈے اٹھائے دارالحکومت ڈھاکہ کے مرکزی باغ اسکوائر پر جمع ہوا۔

رپورٹس کے مطابق دیگر بڑے شہروں میں بھی مظاہرین سڑکوں پر نکلے۔ ان مظاہروں میں بھی جھڑپیں ہوئی ہیں۔

پولیس انسپکٹر الہلال کا کہنا تھا کہ حکمران جماعت کے کارکنوں اور احتجاج میں شامل طلبہ کے درمیان جھڑپیں ہوئی ہیں۔

خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق حکومت نے ملک بھر میں غیر معینہ مدت کے لیے کرفیو نافذ کر دیا ہے جب کہ پیر سے تین دن کے لیے عام تعطیل کا بھی اعلان کر دیا گیا ہے۔

رپورٹس کے مطابق کئی شہروں میں انٹرنیٹ سروس معطل کر دی ہے۔

انٹرنیٹ فراہم کرنے والی کمپنیوں کا کہنا ہے کہ حالیہ دنوں میں دوسری بار تیز رفتار انٹرنیٹ کو بندش کا سامنا ہے۔

اطلاعات کے مطابق صارفین کو میسجنگ سروس واٹس ایپ اور سوشل میڈیا ویب سائٹ فیس بک تک رسائی میں بھی دشواری ہے۔

رپورٹس کے مطابق حکومت مخالف احتجاج میں شامل طلبہ نے ملک میں کئی شاہراہوں کو بھی بلاک کر دیا ہے۔

دوسری جانب یہ اطلاعات بھی موصول ہو رہی ہیں کہ شیخ حسینہ کے استعفے کا مطالبہ کرنے والے طلبہ ’عدم تعاون تحریک‘ شروع کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔

حکومت نے مظاہرین کو فسادی قرار دیا ہے۔

’رائٹرز‘ کے مطابق وزیرِ اعظم شیخ حسینہ نے نیشنل سیکیورٹی پینل کی میٹنگ کے دوران گفتگو میں کہا کہ احتجاج کرنے والے اب طلبہ نہیں ہیں بلکہ یہ دہشت گردی ہیں جو ملک کو عدم استحکام کی جانب لے جانا چاہتے ہیں۔

حالیہ مظاہروں کا آغاز کب ہوا؟

بنگلہ دیش میں سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ نظام کے خلاف 15 جولائی کو طلبہ کی جانب سے شدید مظاہرے کیے گئے تھے۔ لیکن سپریم کورٹ کی جانب سے ملازمتوں کے کوٹے سے متعلق فیصلے کے بعد مظاہروں میں ٹھہراؤ آ گیا تھا۔

مظاہرین بنیادی طور پر پاکستان سے آزادی کی لڑائی میں حصہ لینے والے خاندانوں کے لیے سرکاری ملازمتوں میں 30 فی صد کوٹہ مختص کیے جانے کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔

مظاہرین کا الزام تھا کہ ملازمتوں کے کوٹے سے وزیرِ اعظم شیخ حسینہ کی جماعت عوامی لیگ کو فائدہ ہو رہا ہے۔ عوامی لیگ ہی وہ جماعت تھی جس کے سربراہ شیخ مجیب الرحمٰن نے 1971 میں پاکستان سے علیحدگی کے لیے بنگلہ دیش کے قیام کی تحریک کی قیادت کی تھی۔

گزشتہ ماہ مظاہروں میں شدت اس وقت آئی تھی جب مظاہروں کے منتظمین نے دعویٰ کیا تھا کہ پولیس اور حکومت کے حامی گروہوں نے ان پر حملے کیے ہیں۔

پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں کے واقعات کے بعد وزیرِ اعظم شیخ حسینہ نے ملک بھر میں کرفیو نافذ کرتے ہوئے انٹرنیٹ اور موبائل فون سروسز معطل کر دی تھیں۔

کریک ڈاؤن کے دوران مظاہرین اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان ہلاکت خیز جھڑپوں میں 200 سے زیادہ اموات ہوئیں۔

اقوامِ متحدہ کے چلڈرن فنڈ کے ریجنل ڈائریکٹر برائے جنوبی ایشیا سنجے وجسیکارا نے جمعے کو ایک بیان میں کہا کہ مظاہروں کے دوران ہلاک ہونے والوں میں 32 بچے بھی شامل تھے۔

سنجے کے مطابق ان کے علم میں ہے کہ حکام نے مظاہروں سے تعلق کے شبہے میں بچوں کو بھی حراست میں لے رکھا ہے۔

اقوامِ متحدہ اور امریکہ نے بنگلہ دیش میں مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کی مذمت کی تھی۔

اس رپورٹ میں خبر رساں اداروں ’رائٹرز‘ اور ’اے ایف پی‘ سے معلومات شامل کی گئی ہیں۔

XS
SM
MD
LG