ایک 19 سالہ برطانوی طالبہ جس نے ابھی انڈر گریجویٹ کی ڈگری شروع نہیں کی ہے اسے برسٹل یونیورسٹی کی طرف سے ڈاکٹریٹ کی اعزازی سند سے نوازا جائے گا۔
صومالی نژاد فاھمۃ محمد اس اعزازی ڈگری کو حاصل کرنے والی برطانیہ کی کم عمر ڈاکٹریٹ ہولڈر بن جائیں گی، جنھیں نسوانی ختنے کے خلاف ان کی مہم کے انتھک کاموں کے لیے قانون کے ڈاکٹر کی اعزازی ڈگری سے نوازا جائے گا۔
برطانیہ میں بعض اہم چیلنجوں کا سامنا کرنے والی مسلم خواتین اور لڑکیاں جبری شادی غیرت کے نام پر جرائم، گھریلو تشدد اور نسوانی ختنے کی رسم کا شکار بن چکی ہیں ایسے میں فاھمۃ محمد نے اسکول کے زمانے سے مقامی صدقاتی تنظیم کے ساتھ رضا کارانہ طور پر نسوانی ختنے کو روکنے کے لیے کام کرنا شروع کیا تھا۔
برسٹل پوسٹ کے مطابق صنفی مساوات کی مہم چلانے والی فاھمۃ محمد کنگز کالج لندن میں حیاتیاتی سائنس میں ڈگری حاصل کرنے کے لیے اس سال ستمبر سے پڑھائی شروع کر دیں گی۔
تاہم کالج کے آغاز سے قبل ہی انھیں جمعہ کو برسٹل یونیورسٹی کی گریجویشن تقریب میں اعزازی ڈاکٹریٹ کی سند حاصل ہو جائے گی۔
فاھمۃ کے خاندان نے جب برطانیہ میں ہجرت کی تو وہ سات برس کی تھی۔ اس نے چودہ سال کی عمر میں ایک ممنوع موضوع پر بات کی اور برطانیہ میں اس فرسودہ رسم کی کارروائیوں اور عورتوں اور لڑکیوں کے خلاف تشدد کے بارے میں ایک آگاہی کی مہم کا حصہ بن گئیں۔
ان کی کوششوں کے اعتراف میں انھیں 'آوٹ اسٹینڈنگ ینگ کیمپینر آف دا ائیر ایوارڈ' سے بھی نوازا گیا ہے۔
فاھمۃ محمد نے گھریلو تشدد اور نسوانی ختنے کے بارے میں ایک تھیٹر ڈرامے میں بھی مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری بان کی مون کی طرف سے اس عمل کی روک تھام کے لیے فاھمۃ محمد کی کوششوں کی تعریف کی گئی ہے۔
وہ دو سال قبل اس رسم کے خلاف ایک ملک گیر مہم کا چہرہ تھیں جس میں اس وقت کے تعلیم کے وزیر مائیکل گوو سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ اس عمل کے سنگین خطرات کے بارے میں اساتذہ کو خبردار کریں۔
اس مہم کے نتیجے میں 2015ء برطانیہ میں ایک قانون متعارف کرایا گیا ہے جس میں ہیلتھ اور سماجی کارکنوں اور اساتذہ کو اٹھارہ سال سے کم عمر لڑکیوں میں معلوم شدہ ایف جی ایم یا نسوانی ختنے کے معاملات پولیس میں رپورٹ کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔
برطانیہ میں 1985ء میں اس رسم کو غیر قانونی قرار دیا گیا تھا تاہم 2014ء کے ایک قانون کے تحت ایسے والدین کو سزا ہو سکتی ہے جو اپنی بیٹیوں کے ساتھ اس عمل کو نہیں روکیں گے۔
اس رسم کی روایت افریقہ، ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں صدیوں سے جاری ہے تاہم یورپ برطانیہ اور امریکہ جیسے مغربی ممالک میں بھی یہ رسم موجود ہے جہاں ان ممالک کے تارکین وطن آباد ہیں جہاں اس رسم پر عمل کیا جاتا ہے۔
یونیسیف کی ایک تازہ ترین تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں نسوانی ختنے کی رسم کا شکار ہونے والی خواتین کی تعداد کم ازکم بیس کروڑ ہے جن میں سے تقریبا چار کروڑ چالیس لاکھ وہ ہیں جن کی عمر چودہ سال یا اس سے کم ہے۔