رسائی کے لنکس

صدارتی دوڑ: پانچ ماہ باقی، کلنٹن ٹرمپ آمنے سامنے


فی الوقت، کلنٹن کے سامنے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ ورمونٹ کے سینیٹر برنی سینڈرز کے چاہنے والوں کو کس طرح قائل کریں گی کہ وہ اُن کا ساتھ دیں، جنھوں نے ڈیموکریٹک پارٹی کی نامزدگی کے لیے سخت جدوجہد کی

ڈونالڈ ٹرمپ اور ہیلری کلنٹن نے پچھلے چار ماہ ریاستی سطح کے مقابلوں میں اپنے مد مقابل صدارتی امیدواروں کو شکست دینے میں صرف کیے ہیں؛ اب اُن کے پاس پانچ ماہ رہ گئے ہیں جس دوران وہ ایک دوسرے پر دھیان مرکوز کریں گے، جب وہ امریکی کے صدر بننے کے لیے ایک دوسرے کے خلاف انتخابی مہم چلائیں گے۔

آٹھ نومبر کو ہونے والے قومی انتخابات میں وہ ایک دوسرے کے مدِ مقابل ہوں گے۔

فی الوقت،کلنٹن کے سامنے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ ورمونٹ کے سینیٹر برنی سینڈرز کے چاہنے والوں کو کس طرح قائل کریں گی کہ وہ اُن کا ساتھ دیں، جنھوں نے ڈیموکریٹک پارٹی کی نامزدگی کے لیے سخت جدوجہد کی۔

رابرٹ سمتھ سان فرانسسکو اسٹیٹ یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر ہیں۔

اُنھوں نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ ’’میرے خیال میں، آئندہ چند ہفتوں کے دوران ہم یقینی طور پر یہ چاہیں گے کہ وہ اِن کی نامزدگی کی حمایت کریں، اور ہمیں شک ہے کہ اپنے حامیوں کو فوری طور پر ہیلری کے قریب لاسکیں۔ لیکن، اگلے کنوینشن تک ایسا کر لیں گے‘‘۔

آٹھ برس قبل، کلنٹن کو سینڈرز کی سی صورت حال کا سامنا تھا، جب وہ براک اوباما کے خلاف نامزدگی میں ناکام رہی تھیں۔ اُنھوں نے اوباما کے لیے مہم چلائی تھی، اور یوں، جان مکین کو صدارتی دوڑ میں شکست ہوئی تھی۔

ڈیموکریٹک حکمت عملی کے ماہر، گیری سائوتھ نے کہا ہے کہ کلنٹن کو اپنے ووٹروں کو کوئی وزنی وجہ بتانی ہوگی کہ وہ اُنھیں پسند کریں، کم از کم وہ اُنھیں ناپسند نا کریں۔

اُنھوں نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ ’’اُنھیں ایسے ووٹروں کو اپنے حق میں کرنا ہوگا جو اُن کے خلاف منفی تاثرات رکھتے ہیں، اور میرے خیال میں، ایسا کیا جا سکتا ہے۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ ریپبلیکن پرائمریز میں ایسا کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں‘‘۔

سائوتھ نے کہا کہ ٹرمپ کو خود اپنا چیلنج درپیش ہے۔

بقول اُن کے، ’’اصل سوال یہ ہے آیا یہ شخص جس نے ضابطوں کا لحاظ کرنے میں مکمل عدم دلچسپی لی ہے۔۔ خاص طور پر پرائمری کے عمل کے دوران اپنے پیغام میں ضابطوں کی پرواہ نہیں کی۔۔ کیا وہ کوئی پیغام دے سکتے ہیں اور اُس کے پابند رہ سکتے ہیں، اور اپنے منہ میں جو آئے وہ کہہ دینے سے احتراز برتیں گے، یا اپنی بدنامی کا باعث بنیں گے، اور نہ صرف اپنے آپ کو بلکہ اپنی ساری پارٹی کو مسئلے سے دوچار کر دیں گے؟ مجھے شبہ ہے کہ یہ ایک مسئلہ ہے، جو نومبر تک اس شخص کے ساتھ رہے گا۔‘‘

سمتھ نے کہا کہ اُنہیں ڈر ہے کہ ٹرمپ وہی کریں گے جو اُنھوں نے پرائمریز کے دوران کیا، جب کہ عام انتخابی مہم ’’منقسم اور مخاصمانہ‘‘ طرز اختیار کرے گی۔

اُنھوں نے کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ عام روایتی انتخابی مہم چلائیں۔ مجھے پتا ہے کہ وہ ایسا کرنے سے گریزاں ہیں چونکہ وہ روایتی انتخابی مہم کی بدولت یہاں تک نہیں پہنچے۔ لیکن، میں یہ سمجھتا ہوں کہ لوگوں کی کثرت رائے یہی ہے کہ اگر وہ پیش رفت کرنا چاہتے ہیں اور صدارت کے عہدے تک پہنچنا چاہتے ہیں تو اُنھیں زیادہ روایتی انداز اپنانا ہوگا اور جو ذہن میں آیا اُسے کہنے اور کرنے سے احتراز برتیں گے۔

پارٹی کو متحد کرنا

ٹرمپ کو پارٹی کو متحد کرنے سے متعلق کئی سوالات کا سامنا ہے۔ وہ دراصل ایک ماہ قبل ہی ری پبلیکن پارٹی کے امیدوار بن چکے تھے، لیکن پارٹی کے رہنما اُن کے نام کی توثیق میں سست روی دکھاتے رہے ہیں، جن میں ایوانِ نمائندگان کے اسپیکر پال رائن بھی شامل ہیں، جنھوں نے گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ وہ ٹرمپ کو ووٹ دیں گے۔ دیگر حضرات، جیسا کہ سنہ 2012میں ری پبلیکن پارٹی کے صدارتی امیدوار مِٹ رومنی شامل ہیں، کھلے عام ٹرمپ کی نامزدگی کے مخالف ہیں۔

XS
SM
MD
LG