شام کے مختلف علاقوں میں سرکاری افواج اور باغیوں کے درمیان لڑائی کا سلسلہ بدھ کو بھی جاری رہا جب کہ ہمسایہ ملک ترکی نے شام کے ساتھ واقع اہم سرحدی گزرگاہوں کو تجارتی آمد و رفت کے لیے بندکرنے کا اعلان کیا ہے۔
شامی حزبِ اختلاف کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ تاریخی شہر حلب میں باغیوں اور صدر بشار الاسد کی حامی افواج کے درمیان شدید لڑائی جاری ہے اور جنگجووں نے شہر کے نزدیک واقع ایک پولیس اسٹیشن کو نذرِ آتش کردیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق باغیوں نے مزید کمک شہر کی جانب روانہ کردی ہے جب کہ سرکاری افواج بھی ہیلی کاپٹروں اور مشین گنوں کے ذریعے شہر پر کیے جانے والے اپنے حملوں میں شدت لے آئی ہیں۔
شامی حزبِ اختلاف سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ حمص، حما، دیر الزور اور دارالحکومت دمشق کے مضافات سمیت کئی اور علاقوں میں بھی مسلح باغیوں اور سرکاری افواج کے درمیان جھڑپیں ہورہی ہیں۔
لندن میں قائم شامی حزبِ اختلاف کی حامی تنظیم 'سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس' نے 'وائس آف امریکہ' کو بتایا ہے کہ شام کے مختلف علاقوں میں بدھ کو ہونے والے لڑائی میں کم از کم 40 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ لیکن ان ہلاکتوں کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔
ترکی نے سرحد بند کردی
دریں اثنا ترک حکومت نے شامی باغیوں کی جانب سے ایک سرحدی چوکی پر قبضے کے بعد تمام اہم سرحدی گزرگاہوں پر آمدورفت محدود کرنے کا اعلان کیا ہے۔
ترکی کے سرکاری ٹیلی ویژن 'ٹی آر ٹی' نے کسٹم اور تجارت کے وزیر حیاتی یازسی سے یہ بیان منسوب کیا ہے کہ شام کے ساتھ ترکی کی 566 میل طویل سرحد پر تجارتی ٹرکوں کی آمدروفت بدھ سے بند کردی گئی ہے۔
انقرہ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ قدم حفاظتی نکتہ نظر سے اٹھایا گیا ہے۔ تاہم حکام کےمطابق یہ پابندی صرف تجارتی ٹریفک کے لیے ہے اور شام سے آنے والے پناہ گزینوں کے لیے تمام اہم سرحدی راستے بدستور کھلے رہیں گے۔
یاد رہے کہ پچھلے ہفتے باب الحوا نامی سرحدی چوکی سے متصل شامی علاقے پر باغیوں کے قبضے کے بعد ترک باشندوں کے درجنوں ٹرک یا تو لوٹ لیے گئے تھے یا انہیں نقصان پہنچایا گیا تھا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سرحدی گزرگاہوں کی بندش سے بین السرحدی تجارت متاثر ہوگی جس کا لازمی اثر شامی معیشت پر پڑے گا۔
پناہ گزینوں کی تعداد میں اضافہ
شام میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال اور لڑائی میں شدت آنے کے باعث اپنا گھر بار چھوڑ کر پڑوسی ملکوں، خصوصاً ترکی میں پناہ حاصل کرنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
ترکی کے نائب وزیرِ اعظم بسیر اطالے نے کہا ہے کہ اب تک 44 ہزار سے زائد شامی باشندے ترکی میں پناہ لے چکےہیں جب کہ ان کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
ترک نائب وزیرِ اعظم کے بقول مہاجرین کی تعداد میں اضافے کے پیشِ نظر ان کی حکومت نے عثمانیہ، خرامان ماراس اور نذپ کے علاقوں میں پناہ گزینوں کے مزید کیمپ قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ادھر عرب ممالک کی نمائندہ تنظیم 'عرب لیگ' نے شامی مہاجرین کی امداد کے لیے 100 ملین ڈالر کے عطیات کی اپیل کی ہے۔
ترک وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ ان کا ملک مہاجرین کی مدد کےلیے آلات اور دیگر ضروری اشیا کے عطیات کا خیر مقدم کرے گا لیکن اسے دیگر ممالک کے افراد کی ضرورت نہیں۔
اقوامِ متحدہ کے مبصر مشن کا مستقبل
دریں اثنا شام کے لیے اقوامِ متحدہ کے مبصرین نے اپنے مشن کےمستقبل کے متعلق خدشات کا اظہار کیا ہے۔
عالمی ادارے کے امن مشنز کے سربراہ ہاروے لیڈسوس نے کہا ہے کہ شام میں ان کے ادارے کی سرگرمیاں محدود پیمانے پر جاری ہیں۔
بدھ کو دمشق میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے لیڈسوس نے بتایا کہ شام کے کئی علاقوں میں سیکیورٹی کی صورتِ حال ا نتہائی نازک ہے جسکے باعث غیر ملکی مبصرین کو اپنی سرگرمیاں محدود کرنا پڑی ہیں۔
یاد رہے کہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے جمعے کو شام کے لیے مبصر مشن کی مدت میں مزید 30 دن کی توسیع کی منظوری دی تھی۔ کونسل سے منظور شدہ قرارداد میں کہا گیا تھا کہ اگر شام میں تشدد نہ رکا تو مبصرین کوواپس بلایا جاسکتا ہے۔
شامی حزبِ اختلاف کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ تاریخی شہر حلب میں باغیوں اور صدر بشار الاسد کی حامی افواج کے درمیان شدید لڑائی جاری ہے اور جنگجووں نے شہر کے نزدیک واقع ایک پولیس اسٹیشن کو نذرِ آتش کردیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق باغیوں نے مزید کمک شہر کی جانب روانہ کردی ہے جب کہ سرکاری افواج بھی ہیلی کاپٹروں اور مشین گنوں کے ذریعے شہر پر کیے جانے والے اپنے حملوں میں شدت لے آئی ہیں۔
شامی حزبِ اختلاف سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ حمص، حما، دیر الزور اور دارالحکومت دمشق کے مضافات سمیت کئی اور علاقوں میں بھی مسلح باغیوں اور سرکاری افواج کے درمیان جھڑپیں ہورہی ہیں۔
لندن میں قائم شامی حزبِ اختلاف کی حامی تنظیم 'سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس' نے 'وائس آف امریکہ' کو بتایا ہے کہ شام کے مختلف علاقوں میں بدھ کو ہونے والے لڑائی میں کم از کم 40 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ لیکن ان ہلاکتوں کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔
ترکی نے سرحد بند کردی
دریں اثنا ترک حکومت نے شامی باغیوں کی جانب سے ایک سرحدی چوکی پر قبضے کے بعد تمام اہم سرحدی گزرگاہوں پر آمدورفت محدود کرنے کا اعلان کیا ہے۔
ترکی کے سرکاری ٹیلی ویژن 'ٹی آر ٹی' نے کسٹم اور تجارت کے وزیر حیاتی یازسی سے یہ بیان منسوب کیا ہے کہ شام کے ساتھ ترکی کی 566 میل طویل سرحد پر تجارتی ٹرکوں کی آمدروفت بدھ سے بند کردی گئی ہے۔
انقرہ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ قدم حفاظتی نکتہ نظر سے اٹھایا گیا ہے۔ تاہم حکام کےمطابق یہ پابندی صرف تجارتی ٹریفک کے لیے ہے اور شام سے آنے والے پناہ گزینوں کے لیے تمام اہم سرحدی راستے بدستور کھلے رہیں گے۔
یاد رہے کہ پچھلے ہفتے باب الحوا نامی سرحدی چوکی سے متصل شامی علاقے پر باغیوں کے قبضے کے بعد ترک باشندوں کے درجنوں ٹرک یا تو لوٹ لیے گئے تھے یا انہیں نقصان پہنچایا گیا تھا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سرحدی گزرگاہوں کی بندش سے بین السرحدی تجارت متاثر ہوگی جس کا لازمی اثر شامی معیشت پر پڑے گا۔
پناہ گزینوں کی تعداد میں اضافہ
شام میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال اور لڑائی میں شدت آنے کے باعث اپنا گھر بار چھوڑ کر پڑوسی ملکوں، خصوصاً ترکی میں پناہ حاصل کرنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
ترکی کے نائب وزیرِ اعظم بسیر اطالے نے کہا ہے کہ اب تک 44 ہزار سے زائد شامی باشندے ترکی میں پناہ لے چکےہیں جب کہ ان کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
ترک نائب وزیرِ اعظم کے بقول مہاجرین کی تعداد میں اضافے کے پیشِ نظر ان کی حکومت نے عثمانیہ، خرامان ماراس اور نذپ کے علاقوں میں پناہ گزینوں کے مزید کیمپ قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ادھر عرب ممالک کی نمائندہ تنظیم 'عرب لیگ' نے شامی مہاجرین کی امداد کے لیے 100 ملین ڈالر کے عطیات کی اپیل کی ہے۔
ترک وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ ان کا ملک مہاجرین کی مدد کےلیے آلات اور دیگر ضروری اشیا کے عطیات کا خیر مقدم کرے گا لیکن اسے دیگر ممالک کے افراد کی ضرورت نہیں۔
اقوامِ متحدہ کے مبصر مشن کا مستقبل
دریں اثنا شام کے لیے اقوامِ متحدہ کے مبصرین نے اپنے مشن کےمستقبل کے متعلق خدشات کا اظہار کیا ہے۔
عالمی ادارے کے امن مشنز کے سربراہ ہاروے لیڈسوس نے کہا ہے کہ شام میں ان کے ادارے کی سرگرمیاں محدود پیمانے پر جاری ہیں۔
بدھ کو دمشق میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے لیڈسوس نے بتایا کہ شام کے کئی علاقوں میں سیکیورٹی کی صورتِ حال ا نتہائی نازک ہے جسکے باعث غیر ملکی مبصرین کو اپنی سرگرمیاں محدود کرنا پڑی ہیں۔
یاد رہے کہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے جمعے کو شام کے لیے مبصر مشن کی مدت میں مزید 30 دن کی توسیع کی منظوری دی تھی۔ کونسل سے منظور شدہ قرارداد میں کہا گیا تھا کہ اگر شام میں تشدد نہ رکا تو مبصرین کوواپس بلایا جاسکتا ہے۔