کراچی —
کراچی میں پانچویں سالانہ 'لٹریچر فیسٹول' کا آغاز ہوگیا ہے۔ تین روز جاری رہنے والے اس ادبی میلے میں ادب اور اس سے متعلق موضوعات پر 100 سے زائد نشستیں ہوں گی۔
جمعے کو 'لٹریچر فیسٹول' کے پہلے روز مختلف موضوعات پر 25 سے زائد نشستیں، مذاکرے اور دیگر سرگرمیاں منعقد ہوئیں جن میں شائقینِ ادب اور فنونِ طیفہ سے تعلق رکھنے والی شخصیات کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
'کراچی لٹریچر فیسٹول' کے شریک بانی اور معروف نقاد آصف فرخی نے 'وائس آف امریکہ' کو بتایا کہ فیسٹول میں شرکت کے لیے 11 ممالک کے 30 سے زائد ادیب اور مصنف کراچی پہنچے ہیں جب کہ اندرونِ ملک سے بھی ڈیڑھ سو سے زائد مصنفین اور شعرا اس تین روزہ ادبی میلے میں شریک ہیں۔
آصف فرخی کا کہنا تھا کہ کراچی اپنے مخصوص حالات کے باعث اب صرف "مسائل کے شہر" کی حیثیت سے پہچانا جانے لگا ہے جہاں اس نوعیت کی سرگرمی کی اہمیت دوچند ہوگئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کراچی کتابیں لکھنے اور پڑھنے والوں کا شہر اور ایک اہم ادبی مرکز ہے اور یہاں کے مسائل کا حل صرف مکالمے ہی سے ممکن ہے جسے، ان کے بقول، اس فیسٹول کے نتیجے میں فروغ ملے گا۔
آصف فرخی نے بتایا کہ 2010ء میں ہونے والے پہلے 'کراچی لٹریچر فیسٹول' میں پانچ ہزار افراد نے شرکت کی تھی جب کہ گزشتہ برس ہونے والے چوتھے جشنِ ادب میں شرکا کی تعداد 50 ہزار سے زائد رہی تھی جس سے اس ادبی میلے کی مقبولیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
فیسٹول کے پہلے روز اردو کے معروف ادیب انتظار حسین اور سفرنامہ و ناول نگار مستنصر حسین تارڑ کے ساتھ نشستوں کے علاوہ فیض احمد فیض کی شخصیت اور شاعری پر مذاکرہ ہوا۔
پہلے روز کی دیگر اہم سرگرمیوں میں پاکستان میں موسیقی، انسانی حقوق ، سرکاری اسکولوں اور لائبریریوں کی حالتِ زار ، پاکستان اور بیرونی دنیا کے سیاسی و سفارتی تعلقات پر مذاکروں کے علاوہ بیرونِ ملک سے آئے مندوبین کے ساتھ بھی کئی نشستیں ہوئیں۔
اس سے قبل جمعے کو ہونے والی فیسٹول کی افتتاحی تقریب کے مرکزی مقرر بھارتی تاریخ دان اور مہاتما گاندھی کے پوتے راج موہن گاندھی تھے ۔
اپنےکلیدی خطبے میں راج موہن گاندھی کا کہنا تھا کہ ان کے دادا مہاتما گاندھی اور بانی پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح دونوں ہی ایشیائی ممالک اور خصوصاً برِ صغیر کے ممالک کے درمیان تعاون بڑھانے اور عالمی مسائل و معاملات پر مشترکہ موقف اپنانے کے حامی تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ برِ صغیر کے یہ دونوں بڑے رہنما داخلی مسائل کے حل کے لیے بھی علاقائی ممالک کے درمیان اشتراکِ عمل کے قائل تھے۔
فیسٹول کی افتتاحی تقریب میں تین مختلف ادبی انعامات کی فاتح کتابوں کا بھی اعلان کیا گیا جن کا اجرا پہلی بار کیا گیا ہے۔
سال کی بہترین 'فکشن' کتاب کا انعام عظمیٰ اسلم خان کے ناول 'تِھنر دین اسکن' نے حاصل کیا جب کہ پاکستانی وکیل ڈاکٹر اسامہ صدیق کی کتاب 'پاکستانز ایکسپیریئنس ود فارمل لا' سال کی بہترین 'نان فکشن' کتاب قرار پائی۔
جرمن سفارت خانے کے تعاون سے شروع کیا جانے والا 'کے ایل ایف پیس پرائز' اکبر ایس احمد کی کتاب 'دی تھسل اینڈ دی ڈرون' کو دیا گیا۔
'کراچی لٹریچر فیسٹول' کی شریک بانی امینہ سید نے بتایا کہ اس انعام کا مقصد ملکی یا بین الاقوامی سطح پر امن، ہم آہنگی اور برداشت کو فروغ دینے والی کتابوں کی تحسین کرنا ہے۔
امینہ نے بتایا کہ ہر انعام کے لیے تین، تین کتابیں شارٹ لسٹ کی گئی تھیں جن میں سے بہترین کتابوں کا فیصلہ پاکستان کے معروف دانشوروں، نقادوں اور قلم کاروں پر مشتمل کمیٹیوں نے کیا ہے۔
'لٹریچر فیسٹول' کے پہلے روز تین کتابوں کی رونمائی بھی ہوئی جن میں سابق سفارت کار اے جی نورانی کی کتاب 'دی کشمیر ڈسپیوٹ - 1947'، منیزہ نقوی کے مرتب کردہ افسانوی مجموعے 'آئیل فائنڈ مائے وے'، اور راجر کوناہ کی 'دی ریسٹ از سائیلنس: آرٹ اینڈ سوسائٹی ان پاکستان' شامل ہیں۔
اس کے علاوہ اردو کے معروف ادیب انتظار حسین کے ناول 'بستی' کے 'سلور جوبلی ایڈیشن' کی رونمائی بھی ہوئی۔ پہلے روز کی سرگرمیوں کا اختتام محفلِ مشاعرہ پہ ہوا جس کی صدارتی معروف شاعرہ کشور ناہید نے کی۔
جمعے کو 'لٹریچر فیسٹول' کے پہلے روز مختلف موضوعات پر 25 سے زائد نشستیں، مذاکرے اور دیگر سرگرمیاں منعقد ہوئیں جن میں شائقینِ ادب اور فنونِ طیفہ سے تعلق رکھنے والی شخصیات کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
'کراچی لٹریچر فیسٹول' کے شریک بانی اور معروف نقاد آصف فرخی نے 'وائس آف امریکہ' کو بتایا کہ فیسٹول میں شرکت کے لیے 11 ممالک کے 30 سے زائد ادیب اور مصنف کراچی پہنچے ہیں جب کہ اندرونِ ملک سے بھی ڈیڑھ سو سے زائد مصنفین اور شعرا اس تین روزہ ادبی میلے میں شریک ہیں۔
آصف فرخی کا کہنا تھا کہ کراچی اپنے مخصوص حالات کے باعث اب صرف "مسائل کے شہر" کی حیثیت سے پہچانا جانے لگا ہے جہاں اس نوعیت کی سرگرمی کی اہمیت دوچند ہوگئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کراچی کتابیں لکھنے اور پڑھنے والوں کا شہر اور ایک اہم ادبی مرکز ہے اور یہاں کے مسائل کا حل صرف مکالمے ہی سے ممکن ہے جسے، ان کے بقول، اس فیسٹول کے نتیجے میں فروغ ملے گا۔
آصف فرخی نے بتایا کہ 2010ء میں ہونے والے پہلے 'کراچی لٹریچر فیسٹول' میں پانچ ہزار افراد نے شرکت کی تھی جب کہ گزشتہ برس ہونے والے چوتھے جشنِ ادب میں شرکا کی تعداد 50 ہزار سے زائد رہی تھی جس سے اس ادبی میلے کی مقبولیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
فیسٹول کے پہلے روز اردو کے معروف ادیب انتظار حسین اور سفرنامہ و ناول نگار مستنصر حسین تارڑ کے ساتھ نشستوں کے علاوہ فیض احمد فیض کی شخصیت اور شاعری پر مذاکرہ ہوا۔
پہلے روز کی دیگر اہم سرگرمیوں میں پاکستان میں موسیقی، انسانی حقوق ، سرکاری اسکولوں اور لائبریریوں کی حالتِ زار ، پاکستان اور بیرونی دنیا کے سیاسی و سفارتی تعلقات پر مذاکروں کے علاوہ بیرونِ ملک سے آئے مندوبین کے ساتھ بھی کئی نشستیں ہوئیں۔
اس سے قبل جمعے کو ہونے والی فیسٹول کی افتتاحی تقریب کے مرکزی مقرر بھارتی تاریخ دان اور مہاتما گاندھی کے پوتے راج موہن گاندھی تھے ۔
اپنےکلیدی خطبے میں راج موہن گاندھی کا کہنا تھا کہ ان کے دادا مہاتما گاندھی اور بانی پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح دونوں ہی ایشیائی ممالک اور خصوصاً برِ صغیر کے ممالک کے درمیان تعاون بڑھانے اور عالمی مسائل و معاملات پر مشترکہ موقف اپنانے کے حامی تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ برِ صغیر کے یہ دونوں بڑے رہنما داخلی مسائل کے حل کے لیے بھی علاقائی ممالک کے درمیان اشتراکِ عمل کے قائل تھے۔
فیسٹول کی افتتاحی تقریب میں تین مختلف ادبی انعامات کی فاتح کتابوں کا بھی اعلان کیا گیا جن کا اجرا پہلی بار کیا گیا ہے۔
سال کی بہترین 'فکشن' کتاب کا انعام عظمیٰ اسلم خان کے ناول 'تِھنر دین اسکن' نے حاصل کیا جب کہ پاکستانی وکیل ڈاکٹر اسامہ صدیق کی کتاب 'پاکستانز ایکسپیریئنس ود فارمل لا' سال کی بہترین 'نان فکشن' کتاب قرار پائی۔
جرمن سفارت خانے کے تعاون سے شروع کیا جانے والا 'کے ایل ایف پیس پرائز' اکبر ایس احمد کی کتاب 'دی تھسل اینڈ دی ڈرون' کو دیا گیا۔
'کراچی لٹریچر فیسٹول' کی شریک بانی امینہ سید نے بتایا کہ اس انعام کا مقصد ملکی یا بین الاقوامی سطح پر امن، ہم آہنگی اور برداشت کو فروغ دینے والی کتابوں کی تحسین کرنا ہے۔
امینہ نے بتایا کہ ہر انعام کے لیے تین، تین کتابیں شارٹ لسٹ کی گئی تھیں جن میں سے بہترین کتابوں کا فیصلہ پاکستان کے معروف دانشوروں، نقادوں اور قلم کاروں پر مشتمل کمیٹیوں نے کیا ہے۔
'لٹریچر فیسٹول' کے پہلے روز تین کتابوں کی رونمائی بھی ہوئی جن میں سابق سفارت کار اے جی نورانی کی کتاب 'دی کشمیر ڈسپیوٹ - 1947'، منیزہ نقوی کے مرتب کردہ افسانوی مجموعے 'آئیل فائنڈ مائے وے'، اور راجر کوناہ کی 'دی ریسٹ از سائیلنس: آرٹ اینڈ سوسائٹی ان پاکستان' شامل ہیں۔
اس کے علاوہ اردو کے معروف ادیب انتظار حسین کے ناول 'بستی' کے 'سلور جوبلی ایڈیشن' کی رونمائی بھی ہوئی۔ پہلے روز کی سرگرمیوں کا اختتام محفلِ مشاعرہ پہ ہوا جس کی صدارتی معروف شاعرہ کشور ناہید نے کی۔