کراچی —
پاکستان کی سابق وزیرِاعظم بے نظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات کرنے والے ایک غیر ملکی سفارت کار نے کہا ہے کہ محترمہ بھٹو کے قتل کے سب سے زیادہ ذمہ دار وہ افراد ہیں جو ان کی سکیورٹی کے نگران تھے۔
جنوبی امریکہ کے ملک چلی سے تعلق رکھنے والے سفارت کار ہیرالڈو منوز نے یہ دعویٰ اپنی نئی کتاب 'گیٹنگ اوے وِد مرڈر: بے نظیر بھٹوز اسیسی نیشن اینڈ پالیٹکس آف پاکستان' میں کیا ہے۔
یاد رہے کہ ہیرالڈ منوز اقوامِ متحدہ کے اس انکوائری کمیشن کے سربراہ تھے جس نے حکومتِ پاکستان کی درخواست پر بے نظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات کی تھیں۔
کمیشن نے کئی ماہ تک تحقیقات کے بعد اپنی رپورٹ 2010ء میں اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل کو پیش کردی تھی جسے بعد ازاں پاکستان حکومت کے حوالے کردیا گیا تھا۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی 'اے ایف پی' کی ایک رپورٹ کے مطابق اپنی کتاب میں ہیرالڈو منوز نے لکھا ہے کہ اگر سکیورٹی انتظامات بہتر ہوتے تو 27 دسمبر 2007ء میں راولپنڈی میں ہونے والے حملے اور اس میں بے نظیر بھٹو کی ہلاکت سے بچا جاسکتا تھا۔
منوز نے پاکستانی حکام پر بے نظیر قتل کیس کی تحقیقات میں جان بوجھ کر غفلت برتنے کا الزام بھی عائد کیا ہے۔ لیکن انہوں نے بے نظیر بھٹو کے شوہر اور سابق صدر آصف علی زرداری کے اپنی اہلیہ کے قتل میں ملوث ہونے کی قیاس آرائیوں کو "مضحکہ خیز" قرار دیتے ہوئے مسترد کیا ہے۔
منگل کو امریکہ کے شہر نیویارک میں اپنی کتاب کی تقریبِ رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے ہیرالڈو منوز نے کہا کہ آصف علی زرداری نے ان کی تحقیقات میں تعاون کیا تھا لیکن ان کی حکومت کے بارے میں یہ بات نہیں کہی جاسکتی کیوں کہ، ان کےبقول، قتل کی تفتیش کے دوران ان کے کمیشن کو ہر طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
منوز نے کہا کہ یہ بات یقینی ہے کہ بے نظیر بھٹو پاکستانی طالبان اور 'القاعدہ' کی 'ہٹ لسٹ' پر تھیں لیکن ساتھ ہی پاکستان کی 'اسٹیبلشمنٹ' کے بعض حلقے بھی انہیں راستے سے ہٹانا چاہتے تھے۔
خیال رہے کہ پاکستان کی اس وقت کی حکومت نے بےنظیر بھٹو کے قتل کی ذمہ داری پاکستانی طالبان پر عائد کی تھی لیکن طالبان رہنماؤں نے اس کاروائی سے لاتعلقی کا اعلان کیا تھا۔
تقریبِ رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے چلی سے تعلق رکھنے والے سفارت کار کا کہنا تھا کہ پاکستان کی پولیس نے قتل کی واردات سے متعلق حقائق پر پردہ ڈالا اور ان کے بقول وہ یہ سمجھتے ہیں کہ پولیس کو ایسا کرنے کا حکم "اوپر" سے ملا تھا۔
منوز نے بتایا کہ پاکستانی پولیس نے بے نظیر بھٹو کے قتل کی جائے واردات سے صرف 23 ثبوت اکٹھے کیے تھے جب کہ برطانوی تحقیقاتی ادارے 'اسکاٹ لینڈ یارڈ' نے اپنی تفتیشی رپورٹ میں کہا تھا کہ اگر جائے واردات کو دھویا نہ جاتا تو وہاں سے ہزاروں شواہد مل سکتے تھے۔
منوز کے بقول بے نظیر کے قریبی سیاسی ساتھیوں نے بھی ان کے قاتلوں کا پتا لگانے میں دلچسپی نہیں لی جس کے باعث چھ سال گزرنے کے باوجود اب تک ان کے اصل قاتلوں کا سراغ نہیں لگایا جاسکا ہے۔
منوز نے بے نظیر بھٹو کی سکیورٹی کے ذمہ دار اور بعد میں صدر زرداری کی حکومت میں وزیرِ داخلہ رہنے والے رحمن ملک کے متعلق کہا کہ انہوں نے تحقیقات کے دوران کبھی بھی کمیشن کے کسی سوال کا واضح جواب نہیں دیا۔
تقریبِ رونمائی میں ہیرالڈو منوز نے انکشاف کیا کہ امریکہ نے بے نظیر بھٹو کو تجویز دی تھی کہ وہ اپنی حفاظت کے لیے نجی امریکی سکیورٹی کمپنی 'بلیک واٹر' کی خدمات حاصل کرلیں لیکن اس وقت کے صدر پرویز مشرف نے غیر ملکی محافظوں کو پاکستان آنے کی اجازت دینے سے انکار کردیا تھا۔
اس سوال پر کہ کیا تحقیقات کے دوران انہیں اپنی زندگی کے متعلق خدشات لاحق ہوئے، ہیرالڈو منوز نے کہا کہ تحقیقات کے اختتام کے نزدیک جنوری 2010ء میں ان کی سکیورٹی انتہائی سخت کردی گئی تھی۔
منوز کے بقول انہیں انتہائی قابلِ بھروسا ذرائع نے کہا تھا کہ "یہ لوگ" کچھ بھی کرسکتے ہیں اور انہیں دنیا میں کسی کا خوف نہیں۔
ہیرالڈو منوز نے کہا کہ انہیں آج تک پتا نہیں چل سکا کہ "یہ لوگ" کون تھے جن سے ان کی زندگی کو بھی خطرہ لاحق ہوگیا تھا۔
ہیرالڈو منوز اس وقت اقوامِ متحدہ کے اسسٹنٹ سیکریٹری جنرل کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
جنوبی امریکہ کے ملک چلی سے تعلق رکھنے والے سفارت کار ہیرالڈو منوز نے یہ دعویٰ اپنی نئی کتاب 'گیٹنگ اوے وِد مرڈر: بے نظیر بھٹوز اسیسی نیشن اینڈ پالیٹکس آف پاکستان' میں کیا ہے۔
یاد رہے کہ ہیرالڈ منوز اقوامِ متحدہ کے اس انکوائری کمیشن کے سربراہ تھے جس نے حکومتِ پاکستان کی درخواست پر بے نظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات کی تھیں۔
کمیشن نے کئی ماہ تک تحقیقات کے بعد اپنی رپورٹ 2010ء میں اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل کو پیش کردی تھی جسے بعد ازاں پاکستان حکومت کے حوالے کردیا گیا تھا۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی 'اے ایف پی' کی ایک رپورٹ کے مطابق اپنی کتاب میں ہیرالڈو منوز نے لکھا ہے کہ اگر سکیورٹی انتظامات بہتر ہوتے تو 27 دسمبر 2007ء میں راولپنڈی میں ہونے والے حملے اور اس میں بے نظیر بھٹو کی ہلاکت سے بچا جاسکتا تھا۔
منوز نے پاکستانی حکام پر بے نظیر قتل کیس کی تحقیقات میں جان بوجھ کر غفلت برتنے کا الزام بھی عائد کیا ہے۔ لیکن انہوں نے بے نظیر بھٹو کے شوہر اور سابق صدر آصف علی زرداری کے اپنی اہلیہ کے قتل میں ملوث ہونے کی قیاس آرائیوں کو "مضحکہ خیز" قرار دیتے ہوئے مسترد کیا ہے۔
منگل کو امریکہ کے شہر نیویارک میں اپنی کتاب کی تقریبِ رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے ہیرالڈو منوز نے کہا کہ آصف علی زرداری نے ان کی تحقیقات میں تعاون کیا تھا لیکن ان کی حکومت کے بارے میں یہ بات نہیں کہی جاسکتی کیوں کہ، ان کےبقول، قتل کی تفتیش کے دوران ان کے کمیشن کو ہر طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
منوز نے کہا کہ یہ بات یقینی ہے کہ بے نظیر بھٹو پاکستانی طالبان اور 'القاعدہ' کی 'ہٹ لسٹ' پر تھیں لیکن ساتھ ہی پاکستان کی 'اسٹیبلشمنٹ' کے بعض حلقے بھی انہیں راستے سے ہٹانا چاہتے تھے۔
خیال رہے کہ پاکستان کی اس وقت کی حکومت نے بےنظیر بھٹو کے قتل کی ذمہ داری پاکستانی طالبان پر عائد کی تھی لیکن طالبان رہنماؤں نے اس کاروائی سے لاتعلقی کا اعلان کیا تھا۔
تقریبِ رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے چلی سے تعلق رکھنے والے سفارت کار کا کہنا تھا کہ پاکستان کی پولیس نے قتل کی واردات سے متعلق حقائق پر پردہ ڈالا اور ان کے بقول وہ یہ سمجھتے ہیں کہ پولیس کو ایسا کرنے کا حکم "اوپر" سے ملا تھا۔
منوز نے بتایا کہ پاکستانی پولیس نے بے نظیر بھٹو کے قتل کی جائے واردات سے صرف 23 ثبوت اکٹھے کیے تھے جب کہ برطانوی تحقیقاتی ادارے 'اسکاٹ لینڈ یارڈ' نے اپنی تفتیشی رپورٹ میں کہا تھا کہ اگر جائے واردات کو دھویا نہ جاتا تو وہاں سے ہزاروں شواہد مل سکتے تھے۔
منوز کے بقول بے نظیر کے قریبی سیاسی ساتھیوں نے بھی ان کے قاتلوں کا پتا لگانے میں دلچسپی نہیں لی جس کے باعث چھ سال گزرنے کے باوجود اب تک ان کے اصل قاتلوں کا سراغ نہیں لگایا جاسکا ہے۔
منوز نے بے نظیر بھٹو کی سکیورٹی کے ذمہ دار اور بعد میں صدر زرداری کی حکومت میں وزیرِ داخلہ رہنے والے رحمن ملک کے متعلق کہا کہ انہوں نے تحقیقات کے دوران کبھی بھی کمیشن کے کسی سوال کا واضح جواب نہیں دیا۔
تقریبِ رونمائی میں ہیرالڈو منوز نے انکشاف کیا کہ امریکہ نے بے نظیر بھٹو کو تجویز دی تھی کہ وہ اپنی حفاظت کے لیے نجی امریکی سکیورٹی کمپنی 'بلیک واٹر' کی خدمات حاصل کرلیں لیکن اس وقت کے صدر پرویز مشرف نے غیر ملکی محافظوں کو پاکستان آنے کی اجازت دینے سے انکار کردیا تھا۔
اس سوال پر کہ کیا تحقیقات کے دوران انہیں اپنی زندگی کے متعلق خدشات لاحق ہوئے، ہیرالڈو منوز نے کہا کہ تحقیقات کے اختتام کے نزدیک جنوری 2010ء میں ان کی سکیورٹی انتہائی سخت کردی گئی تھی۔
منوز کے بقول انہیں انتہائی قابلِ بھروسا ذرائع نے کہا تھا کہ "یہ لوگ" کچھ بھی کرسکتے ہیں اور انہیں دنیا میں کسی کا خوف نہیں۔
ہیرالڈو منوز نے کہا کہ انہیں آج تک پتا نہیں چل سکا کہ "یہ لوگ" کون تھے جن سے ان کی زندگی کو بھی خطرہ لاحق ہوگیا تھا۔
ہیرالڈو منوز اس وقت اقوامِ متحدہ کے اسسٹنٹ سیکریٹری جنرل کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے ہیں۔