پاکستان میں اگلے ماہ آج ہی کے دن یعنی 11مئی کو عام انتخابات کے لئے ووٹ ڈالے جائیں گے۔ لہذا، ہر روز سیاسی گہما گہمی میں تیزی آتی جا رہی ہے۔ امیدوار اپنے ووٹرز کے دل جیتنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں اور ووٹرز صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ سیاسی ہلچل نے کیا نئے موڑ لئے، آیئے اس پر ایک تفصیلی نظر ڈالتے ہیں:
جمعیت علمائے اسلام کا 22نکاتی منشور
پاکستان کی متعدد سیاسی جماعتوں نے جہاں پارٹی منشور کے لئے صفحے کے صفحے کالے کر دیئے ہیں، وہیں جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمن گروپ نے صرف 22نکاتی انتخابی منشور جاری کیا ہے۔ منشور میں پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے پر زور دیا گیا ہے۔
کوئٹہ میں پریس کانفرنس کے دوران جے یو آئی ف کے رہنما مولانا عبدالغفور حیدری نے منشور کے اقتباسات پیش کرتے ہوئے’اسلامی منشور‘ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک میں ٹیکس چوری کے خاتمے کیلئے جدید نظام وضع کیاجائے گا۔ منشور میں تعلیم کیلئے کل بجٹ کا 15 اور صحت کیلئے 10 فیصد مختص کیا جائے گا۔ توانائی کے بحران کے حل کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ہمارا ہدف 20 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنا ہے۔
فہمیدہ مرزا کی اپیل مسترد
سندھ کے الیکشن ٹریبونل نے سابق اسپیکر قومی اسمبلی فہمیدہ مرزا کی یاسمین شاہ کے کاغذات کی منظوری کے خلاف اپیل مسترد کردی جبکہ ریٹرننگ افسران کے کئی فیصلوں کو کالعدم قرار دیکر امیدواروں کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دے دی۔
احتجاج کا انوکھا طریقہ، کارکن ”مرغا“ بن گئے
مسلم لیگ ن کی جانب سے ٹکٹوں میں تاخیر کے باعث ن لیگ سیکریٹریٹ لاہورکے باہر احتجاج کرنے والے کارکنوں نے نت نئے طریقے اختیار کر لئے ہیں۔روزنامہ جنگ کی ایک خبر کے مطابق جمعرات کو ٹکٹ نہ ملنے پر ناراض کارکنوں نے مرغا بن کر پارٹی قیادت کو منانے کی کوشش کی۔
ماڈل ٹاوٴن لاہور 180 ایچ کے باہر گوجرانوالہ کے کارکن پہنچے اور انہوں نے سیکرٹریٹ کے باہر نعرے بازی کی اور اپنے پسندیدہ امیدوار ممتاز ہاشمی کو پی پی 96 سے ٹکٹ دینے کا مطالبہ کیا۔ کارکنوں نے سیکریٹریٹ میں داخل ہونے کی کوشش کی اس موقع پر ان کی پولیس کے ساتھ تلخ کلام بھی ہوئی۔ اور جب اس پر بھی بات نہ بنی تو کارکنوں نے قیادت کو منانے کیلئے ”مرغا“ بن کر انوکھا احتجاج کیا۔
انتخابی مہم میں سوشل میڈیا کا استعمال
پاکستان کی تما م سیاسی جماعتیں بھر پور طریقے سے آئندہ عام انتخابات کی تیاریوں میں مصروف ہیں اور اس بار انتخابی جلسوں، ریلیوں اور کارنر میٹینگز کے علاوہ انٹر نیٹ پر سوشل میڈیا کا بھی بھر پور طریقے سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر ووٹرز کو خصوصاٌ نو جوانون ووٹرز کومتاثر کرنے کے لئے انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ابلاغ عامہ کے ماہرین پر مشتمل خصوصی سیل بھی قائم کر دیے گئے ہیں۔
سیاسی و آئینی ماہرین کا خیال ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں نوجوان طبقے کا ووٹ اہم کردار ادا کرے گا اور انتخابی مہم کے لیے سماجی رابطے کی ویب سائٹس بہترین ذریعہ ثابت ہوں گی۔
پیپلزپارٹی کے کئی کامیاب امیدوار ٹکٹ سے محروم
پاکستان پیپلز پارٹی نے سندھ سے ایسے کئی امیدواروں کو ٹکٹ نہیں دیا جو 2008 ءکے انتخابات میں کامیاب ہوئے تھے مثلاً بدین سے سابق رکن قومی اسمبلی پیر آفتاب شاہ جیلانی اور ان کے بھائی پی ایس 50 حیدرآباد سے سابقہ رکن سندھ اسمبلی پیر امجد شاہ جیلانی ۔پیر امجد شاہ جیلانی کی نشست پر ٹکٹ سابق صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل میمن کو دیا گیا ہے۔
پی ایس 4 سے سید جاوید حسین شاہ کو ٹکٹ نہیں ملا، ان کی جگہ سید خورشید شاہ کے داماد سید اویس شاہ کو ٹکٹ دیا گیا ہے۔ انتخابات میں پیپلز پارٹی کے 2 اہم رہنما پیر مظہر الحق اور ڈاکٹر ذوالفقار مرزا حصہ نہیں لیں گے۔ پی ایس 71 دادو سے پیر مظہر الحق کے صاحبزادے پیر مجیب الرحمن کو ٹکٹ دیا گیا ہے جبکہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی نشست پی ایس 57 پر بدستور ان کے صاحبزادے حسنین مرزا الیکشن لڑیں گے۔
پی ایس 8 گھوٹکی IV سے سردار رحیم بخش بوزدار کو ٹکٹ نہیں دیا گیا، وہ گزشتہ انتخابات میں کامیاب ہوئے تھے۔ ان کی جگہ سردار محمد بخش مہر کو ٹکٹ دیا گیا ہے۔
ارباب خضر حیات،14جماعتیں بدل چکے ہیں
دنیا بھر میں سیاستدانوں کیلئے اپنی سیاسی وفاداریاں بدلنا انتہائی مشکل فیصلہ ہوتا ہوگا، لیکن پاکستانی سیاستدانوں کیلئے یہ معمول کی بات ہے۔ مقامی میڈیا کے مطابق ایک سیاسی رہنما ارباب خضرحیات ایسے بھی ہیں جنہوں نے 19سالوں میں 14سیاسی جماعتیں بدلی ہیں۔ خیبر پختونخوا میں خضر حیات کے محل نما بنگلے میں لگی تصاویر مختلف اوقات میں ان کی سیاسی وفاداریوں کی کہانی بیان کرتی ہیں۔ کسی تصویر میں وہ سابق صدر غلام اسحاق خان کے ساتھ موجود ہیں، کسی تصویر میں سابق وزیر اعظم بے نظیر کے ہمراہ ہیں تو کسی میں میاں نواز شریف ان کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ اس وقت وہ مسلم لیگ ن سے وابستہ ہیں۔
جمشید دستی کی جیل سے رہائی ،الیکشن لڑنے کا اعلان
جعلی ڈگری کی وجہ سے سزا پانے والے جمشید دستی کو ملتان جیل سے رہا کر دیا گیا۔میڈیا رپورٹس کے مطابق اس موقع پر جمشید دستی کے سیکڑوں حمایتی جیل کے باہر ان کے استقبال کے لئے موجود تھے۔ ڈھول کی تھاپ کی گونج میں جمشید دستی نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ اپنی نااہلی کو چیلنج کریں گے اور مظفر گڑھ سے آزادامیدوار کے طور پر الیکشن میں حصہ لیں گے۔
جمعیت علمائے اسلام کا 22نکاتی منشور
پاکستان کی متعدد سیاسی جماعتوں نے جہاں پارٹی منشور کے لئے صفحے کے صفحے کالے کر دیئے ہیں، وہیں جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمن گروپ نے صرف 22نکاتی انتخابی منشور جاری کیا ہے۔ منشور میں پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے پر زور دیا گیا ہے۔
کوئٹہ میں پریس کانفرنس کے دوران جے یو آئی ف کے رہنما مولانا عبدالغفور حیدری نے منشور کے اقتباسات پیش کرتے ہوئے’اسلامی منشور‘ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک میں ٹیکس چوری کے خاتمے کیلئے جدید نظام وضع کیاجائے گا۔ منشور میں تعلیم کیلئے کل بجٹ کا 15 اور صحت کیلئے 10 فیصد مختص کیا جائے گا۔ توانائی کے بحران کے حل کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ہمارا ہدف 20 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنا ہے۔
فہمیدہ مرزا کی اپیل مسترد
سندھ کے الیکشن ٹریبونل نے سابق اسپیکر قومی اسمبلی فہمیدہ مرزا کی یاسمین شاہ کے کاغذات کی منظوری کے خلاف اپیل مسترد کردی جبکہ ریٹرننگ افسران کے کئی فیصلوں کو کالعدم قرار دیکر امیدواروں کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دے دی۔
احتجاج کا انوکھا طریقہ، کارکن ”مرغا“ بن گئے
مسلم لیگ ن کی جانب سے ٹکٹوں میں تاخیر کے باعث ن لیگ سیکریٹریٹ لاہورکے باہر احتجاج کرنے والے کارکنوں نے نت نئے طریقے اختیار کر لئے ہیں۔روزنامہ جنگ کی ایک خبر کے مطابق جمعرات کو ٹکٹ نہ ملنے پر ناراض کارکنوں نے مرغا بن کر پارٹی قیادت کو منانے کی کوشش کی۔
ماڈل ٹاوٴن لاہور 180 ایچ کے باہر گوجرانوالہ کے کارکن پہنچے اور انہوں نے سیکرٹریٹ کے باہر نعرے بازی کی اور اپنے پسندیدہ امیدوار ممتاز ہاشمی کو پی پی 96 سے ٹکٹ دینے کا مطالبہ کیا۔ کارکنوں نے سیکریٹریٹ میں داخل ہونے کی کوشش کی اس موقع پر ان کی پولیس کے ساتھ تلخ کلام بھی ہوئی۔ اور جب اس پر بھی بات نہ بنی تو کارکنوں نے قیادت کو منانے کیلئے ”مرغا“ بن کر انوکھا احتجاج کیا۔
انتخابی مہم میں سوشل میڈیا کا استعمال
پاکستان کی تما م سیاسی جماعتیں بھر پور طریقے سے آئندہ عام انتخابات کی تیاریوں میں مصروف ہیں اور اس بار انتخابی جلسوں، ریلیوں اور کارنر میٹینگز کے علاوہ انٹر نیٹ پر سوشل میڈیا کا بھی بھر پور طریقے سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر ووٹرز کو خصوصاٌ نو جوانون ووٹرز کومتاثر کرنے کے لئے انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ابلاغ عامہ کے ماہرین پر مشتمل خصوصی سیل بھی قائم کر دیے گئے ہیں۔
سیاسی و آئینی ماہرین کا خیال ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں نوجوان طبقے کا ووٹ اہم کردار ادا کرے گا اور انتخابی مہم کے لیے سماجی رابطے کی ویب سائٹس بہترین ذریعہ ثابت ہوں گی۔
پیپلزپارٹی کے کئی کامیاب امیدوار ٹکٹ سے محروم
پاکستان پیپلز پارٹی نے سندھ سے ایسے کئی امیدواروں کو ٹکٹ نہیں دیا جو 2008 ءکے انتخابات میں کامیاب ہوئے تھے مثلاً بدین سے سابق رکن قومی اسمبلی پیر آفتاب شاہ جیلانی اور ان کے بھائی پی ایس 50 حیدرآباد سے سابقہ رکن سندھ اسمبلی پیر امجد شاہ جیلانی ۔پیر امجد شاہ جیلانی کی نشست پر ٹکٹ سابق صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل میمن کو دیا گیا ہے۔
پی ایس 4 سے سید جاوید حسین شاہ کو ٹکٹ نہیں ملا، ان کی جگہ سید خورشید شاہ کے داماد سید اویس شاہ کو ٹکٹ دیا گیا ہے۔ انتخابات میں پیپلز پارٹی کے 2 اہم رہنما پیر مظہر الحق اور ڈاکٹر ذوالفقار مرزا حصہ نہیں لیں گے۔ پی ایس 71 دادو سے پیر مظہر الحق کے صاحبزادے پیر مجیب الرحمن کو ٹکٹ دیا گیا ہے جبکہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی نشست پی ایس 57 پر بدستور ان کے صاحبزادے حسنین مرزا الیکشن لڑیں گے۔
پی ایس 8 گھوٹکی IV سے سردار رحیم بخش بوزدار کو ٹکٹ نہیں دیا گیا، وہ گزشتہ انتخابات میں کامیاب ہوئے تھے۔ ان کی جگہ سردار محمد بخش مہر کو ٹکٹ دیا گیا ہے۔
ارباب خضر حیات،14جماعتیں بدل چکے ہیں
دنیا بھر میں سیاستدانوں کیلئے اپنی سیاسی وفاداریاں بدلنا انتہائی مشکل فیصلہ ہوتا ہوگا، لیکن پاکستانی سیاستدانوں کیلئے یہ معمول کی بات ہے۔ مقامی میڈیا کے مطابق ایک سیاسی رہنما ارباب خضرحیات ایسے بھی ہیں جنہوں نے 19سالوں میں 14سیاسی جماعتیں بدلی ہیں۔ خیبر پختونخوا میں خضر حیات کے محل نما بنگلے میں لگی تصاویر مختلف اوقات میں ان کی سیاسی وفاداریوں کی کہانی بیان کرتی ہیں۔ کسی تصویر میں وہ سابق صدر غلام اسحاق خان کے ساتھ موجود ہیں، کسی تصویر میں سابق وزیر اعظم بے نظیر کے ہمراہ ہیں تو کسی میں میاں نواز شریف ان کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ اس وقت وہ مسلم لیگ ن سے وابستہ ہیں۔
جمشید دستی کی جیل سے رہائی ،الیکشن لڑنے کا اعلان
جعلی ڈگری کی وجہ سے سزا پانے والے جمشید دستی کو ملتان جیل سے رہا کر دیا گیا۔میڈیا رپورٹس کے مطابق اس موقع پر جمشید دستی کے سیکڑوں حمایتی جیل کے باہر ان کے استقبال کے لئے موجود تھے۔ ڈھول کی تھاپ کی گونج میں جمشید دستی نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ اپنی نااہلی کو چیلنج کریں گے اور مظفر گڑھ سے آزادامیدوار کے طور پر الیکشن میں حصہ لیں گے۔