دنیا بھر میں طبی ماہرین ’ایبولا وائرس‘ کی سنگینی پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ حال ہی میں امریکہ میں ایبولا وائرس سے متاثرہ دو افراد کی تصدیق اور ایک متاثرہ مریض کی موت کے بعد سے امریکہ بھر میں ایبولا وائرس کے بارے میں خدشات زور پکڑ رہے ہیں۔ امریکی عوام سے لے کر سیاستدان تک ایبولا اور اس کے خطرے سے نمٹنے سے متعلق امریکی حکمت ِ عملی کے بارے میں سوال کر رہے ہیں۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایبولا کی علامات میں بخار، تھکاوٹ، شدید سر درد، کمزوری، قے، پیٹ میں درد اور جسم سے خون بہنا وغیرہ شامل ہیں۔ ابھی تک ایبولا سے متعلق کوئی طریقہ ِ علاج یا ویکسین نہیں دریافت کی جا سکی ہے۔
گذشتہ روز عالمی ادارہ ِصحت کی جانب سے تنبیہہ جاری کی گئی ہے کہ ایبولا وائرس مستقبل میں پاکستان بھی پہنچ سکتا ہے۔۔۔ جہاں ایک طرف امریکہ جیسا ملک بھی بظاہر ایبولا وائرس سے لڑنے کے لیے پوری طرح تیار نہیں دکھائی دیتا، وہیں بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال بھی گردش کر رہا ہے کہ آیا پاکستان جیسا ترقی پذیر ملک ایسے کسی ممکنہ خطرے سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے یا نہیں؟
ہم نے اسی موضوع پر واشنگٹن میں وبائی اور کیمیائی بیماریوں کے ماہر ڈاکٹر رشید چھوٹانی سے گفتگو کی جن کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ایبولا وائرس سے بچاؤ کے لیے چند اقدامات اٹھا کر بڑے نقصان سے بچاؤ ممکن ہے۔
اس انٹرویو کی تفصیل وڈیو رپورٹ میں دیکھئیے۔