کراچی …سمندری پانی کی سطح میں اضافے، آبی آلودگی، طوفان اور دیگر ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث پاکستان کے ساحلی علاقوں سے دیگر مقامات کی طرف نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ابھی تو یہ ابتدا ہے۔ اگر اس مسئلے کے حل پر توجہ نہ دی گئی تو صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے۔
’تھامسن رائٹرز کارپوریشن‘ کے مطابق، پاکستان میں بہت سے خاندان ماحولیاتی تبدیلیوں، سمندر کی سطح میں اضافے، خشک سالی اور سیلاب کی وجہ سے پریشانیوں اور مسائل کا شکار ہیں۔ جو مالی اعتبار سے بہتر ہیں وہ ماحولیاتی تبدیلیوں کا شکار علاقوں سے کسی اور علاقے کی طرف نقل مکانی کر جاتے ہیں۔ لیکن، جو استطاعت نہیں رکھتے وہ ان علاقوں میں ہی رہ کر اپنی بقا کی جنگ لڑتے ہیں۔
ماہی گیر محمد یوسف صوبہٴ سندھ کے ضلع ٹھٹھہ کے ساحلی علاقے کیٹی بندر کے ہَجامڑو میں کئی نسلوں سے آباد ہیں۔کسی زمانے میں یہ علاقہ خوشحال تھا لیکن سمندری طوفان اور سطح سمندر میں مسلسل اضافے کی وجہ اب یہ اپنی خوشحالی کھو چکا ہے۔
62 سالہ یوسف کا کہنا ہے کہ، ’سیلاب جو کچھ تھا بہا کرلیا گیا ۔مچھلیوں بھی اب اتنی نہیں ملتیں جتنی پہلے ملا کرتی تھیں۔ دو بیٹیاں ہیضے کا شکار ہو کر مر چکی ہیں۔ دوسرے بچوں کو بھی آئے دن بخار رہتا ہے یا انہیں بھی ہیضہ ہوجاتا ہے۔ ڈاکٹر سے علاج کے پیسے بھی نہیں ہوتے۔‘
وہ مزید کہتے ہیں، ’اگر میرے پاس وسائل ہوتے تو پانچ سال پہلے ہی ماہی گیری چھوڑ کر ٹھٹھہ چلا گیا ہوتا۔ ہر گزرتے دن سمندر کی بلند ہوتی سطح کسی نہ کسی کی زمین کھا جاتی ہے۔ یہاں زندگی گزارنا ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔ پینے کا پانی ٹھٹھہ سے لانا پڑتا ہے۔ لیکن، اب وہ بھی نمکین ہوتا جا رہا ہے۔لوگ یہی پینے پر مجبور ہیں کیونکہ صاف پانی خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔‘
یوسف کی بیوی ’پارتو بھری‘ کا کہنا ہے۔۔’میرے چار، دس اور بارہ سال کے تین بیٹے بیمار ہیں۔ لیکن میں دعا کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتی۔‘
یوسف کی طرح دیگر 60 خاندان کیٹی بندر کے ایک درجن سے زائد مختلف جزیروں پر زندگی بسر کر رہے ہیں۔
سندھ کے سابق وزیرماحولیا ت حمید اللہ جان کا کہنا ہے کراچی کا صنعتی فضلہ سمندر میں پھینکا جاتا ہے، جس کی وجہ سے آلودگی بڑھ رہی ہے اور ساحل کے قریب مچھلیاں کم ہوتی جا رہی ہیں۔ مجبوراً مچھیروں کو گہرے سمندر کے لئے نامناسب کشتیوں اور جال لے کر مچھلیاں پکڑنے گہرے سمندر جانا پڑتا ہے۔
ایشیائی ترقیاتی بینک کے مطابق، سال 2050ء تک پاکستان اور بنگلہ دیش میں موسمیاتی تبدیلیوں مثلاً سیلاب اور قحط سے متاثرہونے والے علاقوں میں رہنے والوں کی تعداد دو کروڑ 50 لاکھ ہوجائے گی۔ایسے علاقوں کے لوگوں کو دوسرے علاقوں میں بسایا جاسکتا ہے۔
پاکستان کے ماہرین ماحولیا ت کا کہنا ہے کہ چند سالوں کے دوران سمندر ی پانی کی سطح بڑھنے اور پانی کے کھارا اور آلودہ ہونے کی وجہ بہت سے لوگوں نے ساحلی علاقوں سے نقل مکانی کی اور یہ تو صرف ابتدا ہے۔حکومت صورتحال بہتر بنانے کے لئے اقدامات کرے۔
ماحولیاتی تبدیلیوں کے سیکریٹری عارف احمد خان کے مطابق پاکستان کا آئین حکومت کو اس بات کا پابند کرتا ہے کہ وہ شہریوں کو بنیادی سہولیات جیسے غذا، گھر اور تعلیم فراہم کرے۔حکام سڑکوں اور پلوں کی تعمیر کے لئے بے گھر ہونے والوں کو تو ہرجانہ ادا کر دیتے ہیں۔ لیکن، ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بے گھر ہونے والوں کو دوبارہ بسانے پر کوئی توجہ نہیں دیتا۔
اسلام آباد کی ایک این جی او کے کو آر ڈی نیٹر سرور باری کا کہنا ہے ’قحط، سیلاب اور بارشوں کے باعث نقل مکانی کی شرح آئندہ سالوں میں بہت بڑھ جائے گی۔‘
’آکسفم نووب‘ کے فوڈ سیکورٹی ایکسپرٹ شفقت عزیز کے مطابق شہروں کی جانب نقل مکانی سے پہلے سے ہی گنجان آباد شہروں کے وسائل پر دباوٴ میں اضافہ ہوگا۔حکومت کو ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے ممکنہ علاقوں کا ڈیٹا حاصل کرنا اور نقشہ بنایا چاہئے اور اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے پالیسی بنانا چاہئے۔“
ایسے علاقوں میں رہنے والوں کو ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے آگہی دینا بھی ضروری ہے۔ مؤثر تعلیم اور آگہی سے لوگ ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلیوں مثلاً سیلاب، قحط اور زلزلے سے نمٹنا سیکھ سکیں گے اور اپنا اور اپنے ذرائع آمدنی کو محفوظ کرنے کے قابل بھی ہو سکیں گے۔