شاید آپ کو معلو م نہ ہو کہ کچھوئے کے دانت نہیں ہوتے اور ان کا ڈھال نما حفاظتی خول اس کے جسم پر ہمیشہ سے نہیں تھا، وہ وقت گزرنے کے ساتھ فطری ارتقائی مراحل کے دوران بنا، جس پر لاکھوں سال لگے۔
کرہ ارض پر موجود اکثر جانور اور حشرات آج ہمیں جس طرح نظر آتے ہیں، وہ ہمیشہ سے ایسے نہیں تھے۔ زمین پر ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کے مطابق خود کو ڈھالنے، خطرات سے بچانے اور فطری ضرورتیں پوری کرنے کے تقاضوں کے نتیجے میں ان میں جینیاتی تبدیلیاں ہوئیں اور آنے والی نسلیں رفتہ رفتہ بدلتی گئیں۔
جینیات میں تبدیلی کا عمل انتہائی سست ہوتا ہے اور اس کے نتائج سامنے آنے میں لاکھوں سال لگتے ہیں۔
حال ہی میں چین کے جنوب مغربی صوبے گوئیجو میں ہڈیوں کا ایک ڈھانچہ دریافت ہوا ہے جس کے سائنسی تجزیے سے معلوم ہوا کہ وہ لگ بھگ 22 کروڑ 80 لاکھ سال پرانا ہے۔ گویا یہ وہ زمانہ ہے جب ڈینوسار کرہ ارض پر راج کرتے تھے ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈینوسار 24 کروڑ50 لاکھ سال سے تقریباً ساڑھے چھ کروڑ سال پہلے تک زندہ رہے۔
چین میں دریافت ہونے والا ڈھانچہ بہت حد تک کچھوئے سے ملتا ہے۔ اس کی پسلیاں کچھوئے کے خول کے انداز میں ابھری ہوئی ہیں۔ ڈھانچے کے اگلے حصے میں کچھوئے سے ملتے جلتے سر کی ہڈیاں ہیں۔
سائنس دان کچھوئے کے خول کے بارے میں ہمیشہ تجسس میں مبتلا رہے ہیں۔ یہ خول کہاں سے اور کب آیا، اس بارے دو نظریات پائے جاتے ہیں۔ پہلا نظریہ یہ ہے کہ چھپکلی نما جانور کی کھال پر پسلی نما ہڈیاں بننا شروع ہوئیں جنہوں نے رفتہ رفتہ ایک سخت خول کی شکل اختیار کر لی۔
دوسرا سائنسی نظریہ یہ ہے کہ کچھوئے کا خول اس وقت بنا جب چھپکلی نما کسی جانور کی پسلیاں پھیلنا شروع ہوئیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ ڈھال نما خول کی شکل میں ڈھل گئیں۔
امریکہ کی ییل یونیورسٹی کے ایک سائنس دان ٹیلر لیسن کہتے ہیں کہ کچھوے کا خول کافی پیچیدہ ہے۔ یہ تقریباً 26 کروڑ سال پہلے بننا شروع ہو گیا تھا اور اس عمل کو مکمل ہونے میں کئی لاکھ سال لگے اور پھر آج کی موجود شکل میں آنے کے لیے اسے مزید کئی لاکھ سال کا سفر طے کرنا پڑا۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ ارتقائی عمل انتہائی سست رفتاری کے بعد اپنے موجودہ مقام تک پہنچا۔
چین کے جنوب مغربی صوبے سے ملنے والا یہ ڈھانچہ تقریباً ڈھائی میٹر لمبا ہے جس کے ساتھ ایک لمبی دم بھی ہے۔ ڈھانچے کے درمیانی حصے پر پسلیوں کے انداز میں ابھری ہوئی ہڈیاں ہیں جو نیچے تک جاتی ہیں اور ڈھال جیسی شکل بناتی ہیں۔
ڈھانچے کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ ان ہڈیوں نے وقت کے ساتھ ایک مضبوط ڈھال نما خول کی صورت اختیار کی ہو گی۔
چین کے سائنس دان اور اس تحقیق کے شریک مصنف چن لی کہتے ہیں کہ یہ ڈھانچہ کچھوئے کے ارتقائی عمل کی تاریخ کا سب سے اہم گم شدہ حصہ ہے۔ اس دریافت سے ہمیں یہ پتا چل گیا ہے کہ ابتدا میں کچھوئے کا خول نہیں ہوتا تھا۔ یہ عمل طویل ارتقائی مراحل میں طے ہوا۔
اس ڈھانچے کی دریافت سے ایک یہ دلچسپ انكشاف بھی ہوا ہے کہ لاکھوں سال پہلے کچھوئے کے دانت بھی تھے جو ارتقائی سفر میں کسی مرحلے پر غائب ہو گئے۔ شاہد اس لیے کہ کچھوئے نے ایسی چیزیں کھانی شروع کر دیں تھیں جسے چبانے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔