متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے کنوینر، ندیم نصرت کا کہنا ہے کہ ’’ایم کیو ایم کے اندر ٹوٹ پھوٹ نہیں ہوئی‘‘، بلکہ ’’ایک مصنوعی قیادت پیدا کی جا رہی ہے‘‘، اور یہ کہ ’’مائنس ون فارمولا کہ الطاف بھائی کو سیاست سے الگ کر دیا جائے، کامیاب نہیں ہوگا‘‘۔
اِس سوال پر کہ ایسا ’’کیوں‘‘ ہے، اُنھوں نے کہا کہ یہ سوال ’’اسٹیبلشمنٹ سے پوچھا جا سکتا ہے‘‘، اور یہ کہ ’’الطاف بھائی نے ایسا کوئی جرم نہیں کیا جو پاکستان کے خلاف ہو‘‘۔
اُنھوں نے یہ بات ’وائس آف امریکہ‘ کے پروگرام ’کیفے ڈی سی‘ میں اردو سروس کے چیف فیض رحمان سے ایک انٹرویو میں کہی۔
ندیم نصرت نے کہا کہ ’’یہ بات درست نہیں‘‘ کہ مصطفیٰ کمال کی جانب سے پارٹی تشکیل دینے کے اعلان کے بعد، ’’ایم کیو ایم مشکل دور سے گزر رہی ہے‘‘۔ بقول اُن کے،’’ 1992 میں بھی پارٹی کے خلاف آپریشن شروع کیا گیا تھا، جو ناکام رہا‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ پارٹی کے قائد کے بارے میں ’’غلط تاثر پھیلایا جا رہا ہے‘‘، جب کہ وہ ’’اپنے منہ سے بار بار کہہ رہے ہیں کہ میں پاکستان کا وفادار ہوں، میں پاکستان کی خدمت کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔ لیکن، جو 1992ء میں ہوا، اُسے جواز بنایا جاتا ہے‘‘۔
پارٹی کے کنوینر نے کہا کہ آج کل پاناما کی بات کی جاتی ہے اور ایم کیو ایم کے ’را‘ سے مبینہ روابط کی بات ہوتی ہے۔ بقول اُن کے، ’’یہ کہنا کہ ایم کیو ایم ریاست سے وفادار نہیں، غلط سوچ ہے، جس کی میں قطعی طور پر تردید کرتا ہوں۔۔۔ پارٹی کے ریاست کے خلاف کوئی غلط عزائم نہیں۔ ایم کیو ایم محبِ وطن تھی، ہے اور رہے گی‘‘۔
تفصیل جاننے کے لیے وڈیو رپورٹ پر کلک کیجئیے:
اِس ضمن میں، اُنھوں نے کہا کہ ’’جن وڈیوز کا تذکرہ کیا جاتا ہے، وہ تاثر غلط ہے‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ’’ 1992ء کے آپریشن کے دوران اور بعد میں ایم کیو ایم کے ہزاروں کارکنان شہید ہوئے، گھروں سے گرفتار کیے گئے اور لاپتا ہوئے۔ ہم عدالتوں میں بھی جا رہے ہیں؛ مظاہرے بھی کرتے رہے ہیں‘‘۔
ایک سوال پر اُنھوں نے کہا کہ ماضی میں پاکستان میں ’’بدترین سینسرشپ لگی، لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ میڈیا پر کسی کی تقریر اور تصویر پر پابندی لگی ہو‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں ایم کیو ایم کے ساتھ ’’فراخ دلی کا مظاہرہ کیا گیا‘‘، اور پارٹی قومی دھارے میں آئی، ’’لیکن، اِن دِنوں ایسا نہیں ہورہا‘‘۔ بقول اُن کے، ’’بلوچستان میں آپ پیکیج دے رہے ہیں کہ لوگ قومی دھارے میں آئیں، جب کہ کراچی میں آپ لوگوں کو دیوار سے لگا رہے ہیں۔ ۔۔ حالانکہ، ہمارا کوئی ایسا مطالبہ نہیں ہے جو آپ پورا نہیں کرسکتے‘‘۔
"پاکستان کے استحکام کے لیے نئے صوبے ضروری"
ندیم نصرت نے اپنی جماعت سے متعلق اس تاثر کو رد کیا کہ وہ نئے صوبوں کی تشکیل کا مطالبہ کر کے سندھ کو تقسیم کرنا چاہتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ متحدہ قومی موومنٹ نے کبھی یہ مطالبہ نہیں کیا کہ مہاجر صوبہ بنایا جائے۔
"اس وقت پاکستان میں صوبے لسانی بنیاد پر ہیں جب کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ جہاں جہاں آبادی بڑھ چکی ہے وہاں اختیارات مقامی سطح پر تفویض ہونے چاہیئں، وہاں صوبے بننے چاہیں۔ ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ مہاجر صوبہ، یہ کبھی بھی مطالبہ نہیں رہا نہ ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ لسانی بنیاد پر کوئی صوبہ بنایا جائے۔ مثال کے طور پر فاٹا کے علاقے ہیں وہاں ایک مضبوط سوچ ہے یا صرائیکی علاقوں میں ہے اسی طرح اور کئی علاقوں میں ہے , ہزارہ میں تحریک چل رہی ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ ان آوازوں کو سنا جائے۔"
ان کے بقول پاکستان کی خوشحالی اور استحکام کے لیے اس بابت توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ ان کی جماعت نے اس ضمن میں کوئی خاکہ تیار کیا ہے، تو ان کا ندیم نصرت کا کہنا تھا کہ اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کو مدنظر رکھتے ہوئے اس بات کا تعین کیا جا سکتا ہے۔
متحدہ قومی موومنٹ کی طرف سے پاکستان میں ماضی میں بھی نئے صوبے بنانے کی بات کی جاتی رہی ہے لیکن اس پر جماعت کی طرف سے سنجیدگی سے اس معاملے کو آگے بڑھاتے ہوئے نہیں دیکھا گیا۔
اس پر متحدہ قومی موومنٹ کے کنوینر ندیم نصرت کا کہنا تھا کہ ماضی میں مختلف سماجی حلقوں کی طرف سے ان مطالبات کو ان کی جماعت اجاگر کرتی رہی ہے لیکن اب وہ اسے باقاعدہ تحریک کی صورت میں لائے گی۔