لوک ورثہ کی ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر فوزیہ سعید کا کہنا ہے کہ ورثہ، اپنے ملک کی ثقافت کے تحٖفظ اور فروغ کے ساتھ ساتھ اپنی نئی نسل کو اپنے ماضی سے جوڑنے کا کام کر رہا ہے اور انہیں یہ بتانے کی کوشش کر رہا ہے کہ ہماری ثقافت اور تہذیب و تمدن کس طرح مختلف زمانوں سے گذرتا ہو آج کے ترقی یافتہ دور میں داخل ہوا ہے۔
ڈاکٹر فوزیہ سعید پچھلے دنوں جب واشنگٹن آئیں تو وائس آف امریکہ کی اردو سروس نے اپنے ٹیلی وژن شو کیفے ڈٰی سی میں مدعو کیا اور شو کے میزبان فیض رحمٰن نے ان سے ادارے کی کارکردگی پر گفتگو کی۔
لوک ورثہ کو درپیش چیلنجز پر پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر فوزیہ سعید کا کہنا تھا کہ ہماری تاریخ صدیوں پرانی ہے۔ ہم بنیادی طور پر جنوبی ایشیائی لوگ ہیں۔ لیکن، گذشتہ دہائیوں میں ہمارے ادارے کو اس دباؤ کا بھی سامنا رہا ہے کہ ان تمام تاریخی چیزوں کو ہٹا دیا جائے جن کا اسلام سے تعلق نہیں۔ ہم مختلف تہذیبی ادوار سے گذرے ہیں۔ ہم ان میں سے کسی سے اپنی لاتعلقی کا اعلان نہیں کرسکتے۔ ہم خود کو اپنےماضی کی شناخت سے نہیں کاٹ سکتے‘‘۔
لوک ورثہ کے منصوبوں کی راہ میں پیش آنے والی رکاوٹوں کا ذکر کرتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ اس ثقافتی ادارے کو بھی انہی رکاوٹوں کا سامنا ہےجو ہمارے ملک اور معاشرے کو ہے اور وہ ہے انتہاپسندانہ سوچ اور دہشت گردی۔ یہ وہ چیزیں ہیں جو اپنی ثقافت کو ترقی دینے اور روشن خیالی کی راہ پر چلنے میں رکاوٹ ہیں۔
لیکن، ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جاری مہم سے اب صورت حال میں تبدیلی آ رہی ہے۔
لوک ورثہ کےقیام کے حوالے ڈائر یکٹر جنرل فوزیہ سعید کا کہنا تھا کہ لوک ورثہ کی بنیاد1974 میں فیض احمد فیض نے رکھی۔یہ ذوالفقار علی بھٹو کا دور حکومت تھا۔ انہوں نے فیض صاحب کی یہ ذمہ داری سونپی تھی کہ وہ کلچر اور آرٹ کی ترقی اور اس ملک کے ثقافتی ورثے کو محفوظ بنانے کے لیے ادارے قائم کریں۔ ان کے دور میں اس سلسلے میں کئی ادارے قائم ہوئے جن میں سے دو خاٖص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ایک ’نیشنل کونسل آف دی آرٹ‘ اور دوسرا ’لوک ورثہ‘۔
لوک ورثہ کی ذمہ داریوں کا ذکر کرتے ہوئے، ڈاکٹر فوزیہ نے کہا کہ ہمارے ادارے کا کام روایتی ثقافت کو محفوظ کرنا، اس پر تحقیق کرنا، اسے متعارف کرانا، اپنی نئی نسل کو اس سے جوڑنا ہے۔ اس وقت ہمارے پاس اس حوالے سے دو عجائب گھر، ایک میڈیا سینٹر ہے جس میں ہم اپنی ثقافت پر دستاویزی پروگرامز اور فلمیں بناتے ہیں اور مختلف پروگراموں کا انعقاد کرتے ہیں۔ ہمارا ایک شعبہ، زبان، روایتوں، علاقائی موسیقی اور دیگر فنون کے لیے کام کرتا ہے۔ ہمارا نشر و اشاعت کا بھی شعبہ ہے جو اب تک ایک سو سے زیادہ کتابیں شائع کرچکا ہے۔ ہم نے بہت سے آڈیو البم ریلیز کی ہیں اور ہم اس کی ترقی کے لیے مزید کام کررہے ہیں۔ ہمارا ادارہ، ہمارے رہن سہن کے انداز، لباس، برتن اور گھروں کی ساخت پر بھی کام کرتا ہے۔ اس کے علاوہ ہم اپنے پروگراموں میں اپنی اقدار، روایتوں، رشتوں، طرز زندگی اور بات چیت کو بھی موضوع بناتے ہیں۔
اپنی ترجیحات کی بات کرتے ہوئے ڈاکٹر فوزیہ سعید کا کہنا تھا کہ میری توجہ اس پہلو پر مرکوز ہے کہ اپنےبچوں کو اور آنےوالی نسلوں کو اپنےثقافتی ورثے سے متعارف کرایا جائے۔ اور انہیں بتایا جائے کہ ہمارا سفر کہاں سے شروع ہوا تھا اور کن کن مراحل سے گذر کر ہم یہاں پہنچے ہیں۔ اس مقصدکے لیے ہم نے مختلف پروگرام شروع کیے ہیں، جن میں سمر کیمپ، فیسٹیول، موسیقی کے شوز، کانفرنسیں اور سیمنار شامل ہیں۔
لوک ورثہ کی ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر فوزیہ سعید جو کئی کتابوں کی مصنفہ ہیں کہتی ہیں کہ ہماری ثقافت کو لوگ لاٹھی کی طرح ملک کی نصف آبادی کو دبانے اور ہانکنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ لیکن، جب ہم اپنے ماضی کی معاشرت پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں عورت ایک مضبوط کردار کے طور پر دکھائی دیتی ہے، جو بااختیار ہے، اپنے فیصلے خود کرتی ہے، لیکن آج صورت حال اس کے الٹ ہے، جو ہماری ثقافت نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نےمغربی معاشرے کو بھی قریب سے دیکھا ہے اور وہاں بھی خواتین کو مختلف حوالوں سے دبایا جاتا ہے۔
ڈاکٹر فوزیہ سعید ان دنوں خواتین کی تحریکوں پر ایک کتاب لکھ رہی ہیں۔