رسائی کے لنکس

مجھے پڑھنے کیوں نہیں دیتے؟


یہ جانتے ہی کہ میں پاکستان سے ہوں، چار پانچ خواتین وقت ضائع کئے بغیر بہت سے سوال مجھ سے کرنے لگیں۔۔ "لیکن آپ نے اتنی تعلیم کیسے حاصل کر لی؟"

’’او ہو۔۔۔ آپ کا تعلق پاکستان سے ہے۔ ‘‘

یہ سنتے ہی مجھے ایسا محسوس ہونے لگا جیسے بہت سی خواتین مجھ سے اظہار ہمدردی کر رہی ہوں اور مجھے حوصلہ دینے لگی ہوں کہ میں ایک پاکستانی خاتون ہوں۔۔۔

مجھے یہ تجربہ امریکہ میں کرسمس کے موقع پر ایک یہودی دوست کے گھر پر ڈنر کے دوران ہوا۔۔۔

یہ ایک آفیشل ڈنر تھاجس میں پندرہ کے قریب افراد کو مدعو کیا گیا تھا جن میں سے زیادہ تر عمر رسیدہ خواتین مصنفہ تھیں۔ اور جنوبی ایشیا کے حوالے سے خاصی معلومات بھی رکھتی تھیں۔

میرے بارے میں جانتے ہی، سرخ رنگ کے سویٹرز میں ملبوس چار پانچ خواتین وقت ضائع کئے بغیر بہت سے سوالات مجھ سے کرنے لگیں۔۔

پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے لیکن آپ نے اتنی تعلیم کیسے حاصل کر لی؟

یہ سوال سنتے ہی میرے اندر کی حب الوطنی جاگ اٹھی اور ان کے سوالات کو چیلنج سمجھتے ہوئے ان خواتین کو جواب دینے کا فیصلہ کیا۔۔۔

’’ میرا تعلق ایک مڈل کلاس فیملی سے ہے اور میں نے ابتدائی تعلیم ایک گورنمنٹ اسکول سے حاصل کی ہے جہاں فیس نہ ہونے کے برابر ہے۔۔۔۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ لڑکیوں کی تعلیم کے حوالےسے پاکستان میں مزید کام ہونا باقی ہے لیکن وہیں اس حقیقت کا جاننا بھی ضروری ہے کہ پاکستان کے تعلیمی نظام میں لڑکیوں کی حوصلہ افزائی کرنے کے لئے، خواتین کے لئے خاص ادارے قائم کیے گئے ہیں۔ اپنے شہر لاہور کا حوالہ دیتے ہوئے میں نے انہیں بتایا کہ لاہور میں تقریبا چالیس پبلک کالجز میں سے چھبیس صرف خواتین کے لئے ہیں جبکہ باقی بیس میں سے اکثر ۔۔ کو ایجوکیشن ہیں۔۔‘‘


لیکن شاید میرا جواب انہیں مطمئن نہ کر سکا اور انہوں نے میرے سامنے کئی حقائق کا پنڈورہ کھول ڈالا۔

انہی خواتین میں سے ایک خاتون نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میرے خیال میں پاکستان میں مردوں اور خواتین کے درمیان شرمناک حد تک تفریق کی جاتی ہے۔ اور ملک کی آدھی آبادی کو ملک کا کارگر شہری بننے سے محروم رکھا جا رہا ہے۔

مختصر یہ کہ میری کرسمس کی شام کا اختتام کچھ مرجھائے ہوئے انداز میں ہوا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی میں پاکستان میں خواتین کی تعلیم کے حوالے سے ریسرچ کرنے کا فیصلہ کیا۔ جس سے حاصل ہونے والی معلومات نے مجھے ان عمر رسیدہ خواتین کے خیالات سے اتفاق کرنے پر مجبور کر دیا۔


اس ریسرچ کے کچھ اہم نقاط آپ سے شیئر کرتی چلوں۔۔۔

ورلڈ بنک جیسے معتبر ادارے کے دو ہزار گیارہ کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان کی آبادی ساڑھے سترہ کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے اور ساٹھ فیصد آبادی کی عمر پندرہ سے ساٹھ سال ہے۔ اور خواتین اس کل آبادی کا انچاس فیصد سے کچھ زائد حصہ ہیں۔

دو ہزار نو کے اعدادو شمار کے مطابق پاکستان کی کل آبادی کا صرف 54 فیصد حصہ تعلیم یافتہ ہے جس میں مردوں کا تناسب اڑسٹھ فیصد سے زائد جبکہ خواتین کا تناسب صرف چالیس فیصد ہے۔
یہ سوال سنتے ہی میرے اندر کی حب الوطنی جاگ اٹھی اور ان کے سوالات کو چیلنج سمجھتے ہوئے ان خواتین کو جواب دینے کا فیصلہ کیا۔۔

۔

ان اعدادو شمار نے مجھے اس بات کا احساس دلایا کہ چاہے پاکستان میں خواتین کی تعلیم کے لئے کتنے ہی منصوبوں پر کام کرنے کا دعوی کیا گیا ہو لیکن نتائج اس سے کہیں مختلف ہیں۔ اس حقیقت سے کوئی اختلاف نہیں کر سکتا کہ پڑھی لکھی اور ہنرمند خواتین کسی بھی ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں لیکن ہمارے ملک میں خواتین کے کردار کی حد بندی کر کے بھی حد بندی کر دی گئی ہے۔

زبان سے بولے یا نہ بولے لیکن ہر لڑکی کے دل میں یہ سوال ضرور ہے کہ "مجھے پڑھنے کیوں نہیں دیتے"
XS
SM
MD
LG