رسائی کے لنکس

سفارت کاری کوہ پیمائی کی طرح ہے، امریکہ میں پاکستانی سفیر مسعود خان سے غیر رسمی بات چیت


واشنگٹن میں پاکستان کے سفیر مسعود خان کی ‘ کل اور آج‘ میں بہجت جیلانی کے ساتھ گفتگو
واشنگٹن میں پاکستان کے سفیر مسعود خان کی ‘ کل اور آج‘ میں بہجت جیلانی کے ساتھ گفتگو

’’اگر میں سفیر نہ ہوتا تو صحافی یا اینکر ہوتا پھر کسی قہوہ خانے میں بیٹھا کوئی مصنف ہوتاـ‘‘ ۔۔

یہ الفاظ ہیں امریکہ میں پاکستان کے موجودہ سفیر مسعود خان کے ۔ان سے یہ غیر رسمی گفتگو کرنے کا موقعہ مجھے اپنی پاڈ کاسٹ آج اور کل کے لئے ان سے ملاقات کے دوران ملا۔

وہ سفارتکاری کے سفر کے بارے میں بات کرتے ہوئے ونسٹن چرچل کا ایک قول دوہراتے ہیں، کہ ڈپلومیسی ایک آرٹ ہے جس میں لوگوں کو جہنم جانے کے بارے میں اس طرح بتایا جاتا ہے کہ وہ اس کا راستہ پوچھنے لگیں۔

کیا واقعتاً ایسا ممکن ہے کہ کسی نا پسندیدہ صورتحال کو من چاہا بنا دیا جائے؟۔۔

وہ کہتے ہیں کہ ’سفارتکاری ایک کرافٹ ہے، اس کو سیکھنا پڑتا ہے۔ سفارتکاری میں جب آپ مختلف ملکوں اور لوگوں سے میل ملاپ کا سلسلہ شروع کرتے ہیں تو اس آرٹ کو سیکھنے لگتے ہیں کہ کس طرح سے ملکوں کے درمیان تعلقات کو فروغ دیا جائے اور کیسے امن وسلامتی کا ماحول بنایا جائے اور اپنے ملک کے لئے معاشی ترقی کی راہ ہموار کی جائے اور اس سلسلے میں دوسرے ملکوں کے ساتھ آپ کا رابطہ اور کام کا طریق کار سفارتکاری کو آرٹ بنادیتا ہے‘‘۔

سفارتکاری کی راہ پر ایک لمبے عرصے سے گامزن مسعود خان نے1980 میں پاکستان کی وزارت خارجہ سے اپنے سفر کا آغاز کیا اور مختلف راستوں پر چلتےآج یہاں امریکہ میں پاکستان کے سفیر ہیں ۔

مختلف ملکوں اور اداروں میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے ایمبیسیڈر خان پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان کے طور پر بھی فرائض انجام دے چکے ہیں ۔ پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے ستائیسویں صدر کا منصب بھی سنبھال چکے ہیں ۔ اقوام متحدہ کے جنیوا اور نیو یارک دفاتر میں پاکستان کے مستقل نمائندے کے طور پر بھی ذمے داریاں ادا کرتے رہے ہیں ۔ چین میں سفیر رہے اور پھر اسلام آباد پاکستان میں انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز میں ڈائریکٹر جنرل کی ذمے داریاں بھی سنبھالیں۔

ایمبیسیڈر مسعود خان نے ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی ویژن سے انگریزی میں خبریں بھی پڑھیں اور متعدد پروگراموں میں میز بان کے فرائض بھی سنبھالے ۔

ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے اپنے تعلق کا ذکر کرتے ہوئے مسعود خان کہتے ہیں:

’’ آواز کی اہمیت کو جاننے اور لہجے کے اتار چڑہاؤ کو سمجھنے میں میرے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے تجربے نے بہت مدد دی ۔دفتر خارجہ میں ترجمانی کے فرائض انجام دیتے ہوئے بھی یہ تجربہ میرے کام آیا ۔

ہر پل تبدیلی سے دوچار وقت نے سفارتکاری کی ذمہ داریوں کو کس انداز میں متاثر کیا ہے؟

براہ راست اس سوال پر آنے سے پہلے ایمبیسیڈر خان نے وائس آف امریکہ سے میرے ساتھیوں اور میرے ساتھ گاہے گاہے ہونے والی بات چیت کاحوالہ دیتے ہوئے ہمارے کام اور ادارے کو سراہا ۔

وی او اے اردو پوڈکاسٹ: کل اور آج بہجت جیلانی کے ساتھ
please wait

No media source currently available

0:00 0:00:56 0:00

اپنےسفارتی منصب کے اوائل دنوں کو یاد کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اس وقت ٹیکنالوجی بہت ابتدائی مراحل میں تھی ۔فیکس کے بعد کمپیوٹرز کا زمانہ آیا لیکن وہ آج کے دور سے کہیں مختلف تھا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ٹیکنالوجی میں انقلاب سفارتکاری کے شعبے میں بھی ایک بڑی تبدیلی لا رہا ہے۔ان کے بقول اب حالات بدل چکے ہیں لیکن سفارتکاری کل بھی محنت طلب تھی اور آج بھی جانفشانی کا تقاضہ کرتی ہے۔

سفارتکاری کے شعبے میں سوشل میڈیا کی آمد سے کیا دخل در معقولات ہوئی ہے؟ ۔۔مسعود خان سفیر صاحب کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا کے ذریعے رائے سازی کی جاتی ہے اوراس کے منفی اثرات کو دور کرنا دشوار طلب ہو سکتا ہے۔

میں نے سوال کیا کہ اگر سفارتکاری ملکوں کو قریب لانے کا ذریعہ ہے تو پھر آج کی دنیا میں اتنے تنازعات اور جنگیں کیوں ؟ کیا سفارت کار اپنا کام درست انداز میں نہیں کر رہے؟

ایمبیسڈر خان کا کہنا تھا کہ جب تک اقوام عالم کے آپس کے اختلافات رہیں گے ، تصادم کے خطرے کو روکنے کے لئے سفارتکاری کی ضرورت باقی رہے گی۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ سب ٹھیک ہو جائے لیکن ایک بات ضرور ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد کوئی تیسری بڑی جنگ نہیں ہوئی جو بہت ہولناک ہو سکتی تھی۔ تو اگر آپ چاہیں تو اس کا کریڈٹ اقوام متحدہ کو بھی دیا جا سکتا ہے۔ اور بڑی طاقتوں کا صبرو تحمل بھی قابل ذکر ہے۔

ان کے بقول، سفارتکاری کا بنیادی فوکس اپنے ملکی مفادات کا دفاع کرنا ہے اور سفارتکاروں کا یہ فرض ہے کہ وہ امن و سلامتی کو برقرار رکھنے کے لئے کوششیں کرتے رہیں۔

اتنی سنجیدہ گفتگو کے بعد سوچا کہ ذرا ہلکی پھلکی بات بھی ہو جائے ۔پوچھا کہ سفارتی سفر کا کوئی ایسا دلچسپ واقعہ جو ہمیشہ یاد رہا ہو ؟۔۔جواب آیا کہ سفارتکاری از خود ایک بڑا واقعہ ہے ۔

"ہر دن ایک نیا امتحان لے کر آتا ہے۔ آپ خود اپنی جانچ کرتے ہیں اور دوسرے لوگ بھی آپ کی جانچ پرکھ کرتے ہیں تو یہ سلسلہ جاری رہتا ہے ۔مختلف ملکوں مین جانا اور وہاں کے لوگوں اور ان کی تہذیب سے واقف ہونا اس سفر کودلچسپ بنائے رکھتا ہے۔ "سفارتکاری کوہ پیمائی کی طرح ہے اور اس میں بھی آپ کو ہمالیہ ہی کو سر کرنا پڑتا ہے '۔یہ ان کا کہنا تھا ۔

پاکستان اور امریکہ کے سفارتی تعلقات کے اتار چڑھاو کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’’ پاکستان امریکہ تعلقات پچھتر برسوں میں زیادہ ادوار میں مضبوط رہے ہیں ۔ مسائل بھی پیدا ہوئے ہیں اور ان کو حل کرنے کی کوششیں بھی ساتھ رہی ہیں ۔ پاکستان اور امریکہ نے مل کر امن سازی کی کوششیں بھی کی ہیں ۔1950 کی دہائی میں پاکستان اپنے ابتدائی دور میں کمزور تھا اس وقت امریکہ نے ہماری بہت مدد کی ۔اس وقت فوجی اور معاشی تعاون میں بھی اضافہ ہوا۔ پاکستان امریکہ میں قریبی تعاون بھی رہا ہے۔ اور ہمیں اسی نہج پر اپنی کوشش جاری رکھنی چاہیے اور ہمیں امید ہے کہ ہم ان تعلقات کو اعلی سطح پر لے جائیں گے‘‘

پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں سفارتکاری کے شعبے میں کچھ نمایاں نام بھی ہماری گفتگو کا حصہ بنے، جن میں سر ظفراللہ خان، پطرس بخاری، آغا شاہی، صاحبزادہ یعقوب خان، جمشید مارکرجیسی شخصیات کے زمانے کی سفاتکاری اور آج کی سفارتکاری کا تقابل شامل تھا جو آپ ہماری پاڈ کاسٹ میں تفصیل سے سن سکتے ہیں۔اور ہمیں بتا سکتے ہیں کہ آپ کو ہماری یہ اہم پاڈ کاسٹ کیسی لگی۔ ہمیں آپ کے فیڈ بیک کا انتظار رہے گا ۔

XS
SM
MD
LG