قاہرہ میں صدراتی محل کے باہر اور قرب و جوار میں بدھ کے روز صدر محمد مرسی کے حامیوں اور ان کے مخالفین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔
گذشتہ ماہ کے آخر میں جاری ہونے والے صدارتی فرمان کی منسوخی کا مطالبہ کرنے والے مظاہرین نے صدارتی محل کے باہر دھرنا دے رکھا ہے۔
اخوان المسلیمون نے بھی بدھ کے روز صدر محمد مرسی کے فرمان کے حق اور ان سے یک جہتی کے اظہار کے لیے ایک بڑے مظاہرے کی اپیل کی تھی۔
صدر مرسی کے حامی دن بھر رفتہ رفتہ صدارتی محل کے قریب اکھٹے ہوتے رہے اور شام کو جب ان کا ایک بڑا مجمع اکٹھا ہوگیا تو مخالفین سے ان کی جھڑپیں شروع ہوگئیں۔
قاہرہ سے وائس آف امریکہ کے نمائندے ایڈورڈ یرنین کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صدر کے حامیوں نے مخالفین پر ہلہ بول دیا اور ان کے خیمے اکھاڑ کر پھینک دیے اور انہیں علاقے سے ہٹنے پر مجبور کردیا۔
اس سے قبل مصر کی اسلام پسند سیاسی جماعت اخوان المسلمون نے صدر محمد مرسی کی حمایت میں جلوس نکالنے کی اپیل کی تھی، جب کہ تحریر چوک اور صدارتی محل کے سامنے مسٹر مرسی کے مخالفین خیمے لگا کر اپنا دھرناجاری رکھے ہوئے ہیں۔
اخوان المسلیمون نے لوگوں سے اپنی اپیل میں کہاتھا کہ وہ بدھ کی شام صدارتی محل کے سامنے مسٹر مرسی سے یک جہتی کے اظہار کے لیے جمع ہوں۔
پارٹی کا کہناہے کہ انہوں نے مظاہرے کی درخواست اس لیے کی ہے کیونکہ ان کے مخالفین طاقت کے ذریعے اپنی رائے مسلط کرنا چاہتے ہیں۔
ایک اور خبر کے مطابق حزب مخالف سے تعلق رکھنے والے بہت سے مظاہرین نے کہاہے کہ وہ اس وقت تک اپنا احتجاج ترک نہیں کریں گے جب تک مسٹر مرسی اپنا جاری کردہ فرمان واپس نہیں لے لیتے۔
گذشتہ ماہ کے آخر میں جاری کیے جانے والے فرمان کے ذریعے ان کے عہدے کو عدالتی احکامات سے بالاتر قرار دے دیا گیا تھا۔ اس فرمان کے توسط سے انہیں وسیع تر اختیارات حاصل ہوگئے ہیں اور ان کے کسی حکم یا فیصلے کو کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔
منگل کے روز مصر کی پولیس نے صدراتی محل کے باہر اکھٹے ہونے والے مظاہرین کو منشتر کرنے کے لیے آنسو گیس کے گولے پھینکے۔
صدارتی محل کے سامنے اکٹھے ہونے والے ہجوم کی تعداد ہزاروں میں تھی اور وہ مسٹر مرسی کے خلاف نعرے لگا رہے تھے۔
پولیس نے مظاہرین کو محل کے اندر داخل ہونے سے روکنے کی کوشش کی مگر لوگوں کے بڑے ہجوم کے آگے ان کی ایک نہ چلی اور اسے پیچھے ہٹنا پڑا۔ مظاہرین رکاوٹیں عبور کرتے ہوئے صدارتی محل کی دیوار تک پہنچ گئے۔
مصر کے عہدےداروں کا کہنا ہے صدر مرسی مظاہرے کے دوران محل چھوڑ کر چلے گئے تھے۔
احتجاج میں شامل بہت سے مظاہرین وہی نعرے لگارہے تھے جو صدر حسنی مبارک کے خلاف چلنے والی تحریک کے دوران لگائے جاتے تھے۔
نئے آئینی مسودے پر 15 مارچ کو عوامی ریفرینڈم کرانے کا اعلان کیا گیا ہے۔
گذشتہ ماہ کے آخر میں جاری ہونے والے صدارتی فرمان کی منسوخی کا مطالبہ کرنے والے مظاہرین نے صدارتی محل کے باہر دھرنا دے رکھا ہے۔
اخوان المسلیمون نے بھی بدھ کے روز صدر محمد مرسی کے فرمان کے حق اور ان سے یک جہتی کے اظہار کے لیے ایک بڑے مظاہرے کی اپیل کی تھی۔
صدر مرسی کے حامی دن بھر رفتہ رفتہ صدارتی محل کے قریب اکھٹے ہوتے رہے اور شام کو جب ان کا ایک بڑا مجمع اکٹھا ہوگیا تو مخالفین سے ان کی جھڑپیں شروع ہوگئیں۔
قاہرہ سے وائس آف امریکہ کے نمائندے ایڈورڈ یرنین کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صدر کے حامیوں نے مخالفین پر ہلہ بول دیا اور ان کے خیمے اکھاڑ کر پھینک دیے اور انہیں علاقے سے ہٹنے پر مجبور کردیا۔
اس سے قبل مصر کی اسلام پسند سیاسی جماعت اخوان المسلمون نے صدر محمد مرسی کی حمایت میں جلوس نکالنے کی اپیل کی تھی، جب کہ تحریر چوک اور صدارتی محل کے سامنے مسٹر مرسی کے مخالفین خیمے لگا کر اپنا دھرناجاری رکھے ہوئے ہیں۔
اخوان المسلیمون نے لوگوں سے اپنی اپیل میں کہاتھا کہ وہ بدھ کی شام صدارتی محل کے سامنے مسٹر مرسی سے یک جہتی کے اظہار کے لیے جمع ہوں۔
پارٹی کا کہناہے کہ انہوں نے مظاہرے کی درخواست اس لیے کی ہے کیونکہ ان کے مخالفین طاقت کے ذریعے اپنی رائے مسلط کرنا چاہتے ہیں۔
ایک اور خبر کے مطابق حزب مخالف سے تعلق رکھنے والے بہت سے مظاہرین نے کہاہے کہ وہ اس وقت تک اپنا احتجاج ترک نہیں کریں گے جب تک مسٹر مرسی اپنا جاری کردہ فرمان واپس نہیں لے لیتے۔
گذشتہ ماہ کے آخر میں جاری کیے جانے والے فرمان کے ذریعے ان کے عہدے کو عدالتی احکامات سے بالاتر قرار دے دیا گیا تھا۔ اس فرمان کے توسط سے انہیں وسیع تر اختیارات حاصل ہوگئے ہیں اور ان کے کسی حکم یا فیصلے کو کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔
منگل کے روز مصر کی پولیس نے صدراتی محل کے باہر اکھٹے ہونے والے مظاہرین کو منشتر کرنے کے لیے آنسو گیس کے گولے پھینکے۔
صدارتی محل کے سامنے اکٹھے ہونے والے ہجوم کی تعداد ہزاروں میں تھی اور وہ مسٹر مرسی کے خلاف نعرے لگا رہے تھے۔
پولیس نے مظاہرین کو محل کے اندر داخل ہونے سے روکنے کی کوشش کی مگر لوگوں کے بڑے ہجوم کے آگے ان کی ایک نہ چلی اور اسے پیچھے ہٹنا پڑا۔ مظاہرین رکاوٹیں عبور کرتے ہوئے صدارتی محل کی دیوار تک پہنچ گئے۔
مصر کے عہدےداروں کا کہنا ہے صدر مرسی مظاہرے کے دوران محل چھوڑ کر چلے گئے تھے۔
احتجاج میں شامل بہت سے مظاہرین وہی نعرے لگارہے تھے جو صدر حسنی مبارک کے خلاف چلنے والی تحریک کے دوران لگائے جاتے تھے۔
نئے آئینی مسودے پر 15 مارچ کو عوامی ریفرینڈم کرانے کا اعلان کیا گیا ہے۔