شام کے ایک جنگی طیارے نے باغیوں کے زیر قبضہ شمالی سرحدی قصبے اعزاز پر بدھ کے روز بم برسائے، جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں لوگوں کے ہلاک اور زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔
وائس آف امریکہ کے نمائندے سکاٹ بوب نے متاثرہ علاقے میں مقامی باغی کمانڈر سے انٹرویوز کرنے کے بعد اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ شام کی فوج نے مگ فائٹر طیارے سے بم گرائے جو تین بلاک کے فاصلے پر گرے۔
ایک اور خبر کے مطابق شام کے دارالحکومت دمشق میں اس ہوٹل کے پارکنگ لاٹ کے نزدیک بم دھماکہ ہوا ہے جہاں اقوامِ متحدہ کے مبصرین قیام پذیر ہیں۔
شامی باغیوں کی تنظیم 'فری سیرین آرمی' نے دھماکے کی ذمہ داری قبول کی ہے تاہم باغیوں نے واضح کیا ہے کہ ان کی کاروائی کا نشانہ بین الاقوامی مبصرین نہیں بلکہ شامی فوجی تھے۔
شام کے سرکاری ٹی وی کے مطابق 'داما روز ہوٹل' اور دیگر فوجی تنصیبات کے نزدیک بدھ کو ہونے والا بم دھماکہ خاصا شدید تھا جس کے نتیجے میں نزدیک ہی کھڑے ایک آئل ٹینکر میں بھی آگ بھڑک اٹھی۔
حکام کے مطابق دھماکے کےنتیجے مین تین افراد زخمی ہوئے ہیں۔ شام کے نائب وزیرِ خارجہ فیصل مقداد نے تصدیق کی ہے کہ عالمی ادارے کے کسی مبصر کو دھماکے میں کوئی نقصان نہیں پہنچا۔
شامی نائب وزیرِ خارجہ نے واقعے پر اپنے ردِ عمل میں کہا ہے کہ بم دھماکے کے مقام کے انتخاب سے واقعے میں ملوث افراد کے ارادوں کااظہار ہوتا ہے۔ بظاہر ان کا اشارہ شام کے صدر بشار الاسدکے خلاف مسلح جدوجہد کرنے والے باغیوں کی جانب تھا۔
فیصل مقداد نے بم دھماکے کو کھلی دہشت گردی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سلسلے کو اب رک جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ عالمی برادری کو دہشت گردی کے خلاف ایک دوسرے کے تعاون سے کام کرنا ہوگا کیوں کہ ان کے بقول، اگر شام میں اقوامِ متحدہ کے مبصرین کو نشانہ بنا یا جاسکتا ہے تو پھر دہشت گردی کی یہ کاروائی کہیں اور بھی ہوسکتی ہے۔
ادھر 'فری سیرین آرمی' کے ایک ترجمان نے واردات کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا ہے تنظیم کے جنگجووں نے یہ کاروائی اس اطلاع پر کی تھی کہ ہوٹل کے نزدیک فوجی افسران کا ایک بڑا اجلاس ہونے جارہا ہے۔
تاہم 'یونی ورسٹی آف پیرس' میں سیاسیات کے استاد خطر ابو دیاب نے باغیوں کے اس دعویٰ پر شبہ کا اظہار کیا ہے۔ ابو دیاب کے بقول اس نوعیت کا منظم حملہ باغیوں کی استطاعت سے باہر لگتا آتا ہے کیوں کہ جس علاقے کو نشانہ بنایا گیا وہاں سیکیورٹی انتظامات یقیناً انتہائی سخت ہوں گے۔
'وائس آف امریکہ' سے گفتگو میں سیاسیات کے استاد کا کہنا تھا کہ شامی افواج کی اندرونی صفوں میں ہمدردوں کی غیر موجودگی کی صورت میں باغیوں کے لیے یہ تقریباً ناممکن ہوگا کہ وہ اس محفوظ فوجی علاقے میں گھس کر کوئی کاروائی کرسکیں۔
وائس آف امریکہ کے نمائندے سکاٹ بوب نے متاثرہ علاقے میں مقامی باغی کمانڈر سے انٹرویوز کرنے کے بعد اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ شام کی فوج نے مگ فائٹر طیارے سے بم گرائے جو تین بلاک کے فاصلے پر گرے۔
ایک اور خبر کے مطابق شام کے دارالحکومت دمشق میں اس ہوٹل کے پارکنگ لاٹ کے نزدیک بم دھماکہ ہوا ہے جہاں اقوامِ متحدہ کے مبصرین قیام پذیر ہیں۔
شامی باغیوں کی تنظیم 'فری سیرین آرمی' نے دھماکے کی ذمہ داری قبول کی ہے تاہم باغیوں نے واضح کیا ہے کہ ان کی کاروائی کا نشانہ بین الاقوامی مبصرین نہیں بلکہ شامی فوجی تھے۔
شام کے سرکاری ٹی وی کے مطابق 'داما روز ہوٹل' اور دیگر فوجی تنصیبات کے نزدیک بدھ کو ہونے والا بم دھماکہ خاصا شدید تھا جس کے نتیجے میں نزدیک ہی کھڑے ایک آئل ٹینکر میں بھی آگ بھڑک اٹھی۔
حکام کے مطابق دھماکے کےنتیجے مین تین افراد زخمی ہوئے ہیں۔ شام کے نائب وزیرِ خارجہ فیصل مقداد نے تصدیق کی ہے کہ عالمی ادارے کے کسی مبصر کو دھماکے میں کوئی نقصان نہیں پہنچا۔
شامی نائب وزیرِ خارجہ نے واقعے پر اپنے ردِ عمل میں کہا ہے کہ بم دھماکے کے مقام کے انتخاب سے واقعے میں ملوث افراد کے ارادوں کااظہار ہوتا ہے۔ بظاہر ان کا اشارہ شام کے صدر بشار الاسدکے خلاف مسلح جدوجہد کرنے والے باغیوں کی جانب تھا۔
فیصل مقداد نے بم دھماکے کو کھلی دہشت گردی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سلسلے کو اب رک جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ عالمی برادری کو دہشت گردی کے خلاف ایک دوسرے کے تعاون سے کام کرنا ہوگا کیوں کہ ان کے بقول، اگر شام میں اقوامِ متحدہ کے مبصرین کو نشانہ بنا یا جاسکتا ہے تو پھر دہشت گردی کی یہ کاروائی کہیں اور بھی ہوسکتی ہے۔
ادھر 'فری سیرین آرمی' کے ایک ترجمان نے واردات کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا ہے تنظیم کے جنگجووں نے یہ کاروائی اس اطلاع پر کی تھی کہ ہوٹل کے نزدیک فوجی افسران کا ایک بڑا اجلاس ہونے جارہا ہے۔
تاہم 'یونی ورسٹی آف پیرس' میں سیاسیات کے استاد خطر ابو دیاب نے باغیوں کے اس دعویٰ پر شبہ کا اظہار کیا ہے۔ ابو دیاب کے بقول اس نوعیت کا منظم حملہ باغیوں کی استطاعت سے باہر لگتا آتا ہے کیوں کہ جس علاقے کو نشانہ بنایا گیا وہاں سیکیورٹی انتظامات یقیناً انتہائی سخت ہوں گے۔
'وائس آف امریکہ' سے گفتگو میں سیاسیات کے استاد کا کہنا تھا کہ شامی افواج کی اندرونی صفوں میں ہمدردوں کی غیر موجودگی کی صورت میں باغیوں کے لیے یہ تقریباً ناممکن ہوگا کہ وہ اس محفوظ فوجی علاقے میں گھس کر کوئی کاروائی کرسکیں۔