دنیا کی سب سے وزنی خاتون انتقال کر گئیں

ایمان احمد عبدالعاطی۔ دنیا کی سب سے وزنی خاتون

سمندر کے ساحل کی گیلی اور ٹھنڈی ریت پر چلنا ایمان کا خواب تھا لیکن ان کا یہ خواب اب کبھی پورا نہیں ہو گا۔

پیر کے روز یہ خبر بڑے دکھ سے سنی گئی کہ دنیا کی سب سے وزنی خاتون کا أبوظہبی کے ایک اسپتال میں انتقال ہو گیا ہے۔ کئی مہینوں سے خبروں اور سوشل میڈیا کا موضوع رہنے والی ایمان احمد عبدالعاطی نے اپنے خواب کی تعبیر کے لیے مصر کے شہر اسکندریہ سے ممبئی اور پھر أبوظہبی کا سفر طویل اور کٹھن سفر کیا تھا۔

اس سال مئی میں ممبئی سے ابوظہبی منتقلی کے بعد برجیل اسپتال کے 20 سے زیادہ ڈاکٹروں کی ٹیم ان کا علاج کر رہی تھیں۔ ایمان احمد عبدالعاطی کو ممبئی کے سیفی اسپتال سے أبو ظہبی اس لیے لایا گیا تھا کیونکہ اس کے عزیز وأقارب علاج کی پیش رفت سے مطمئن نہیں تھا اور ان کا کہنا تھا کہ اسپتال کا عملہ ایمان پر اتنی توجہ نہیں دے رہا جتنی اسے ضرورت تھی۔

انتقال کے وقت ایمان احمد عبدالعاطی عمر 37 سال تھی۔

ایمان عبدالعاطی کو مصر کے شہر اسکندریہ سے ممبئی لے جانا کچھ اتنا آسان نہیں تھا۔ سیفی اسپتال کی انتظامیہ نے میڈیا پر ایمان کے موٹاپے کی خبریں پڑھ کر انہیں مفت علاج کرانے کی پیش کش کی تھی۔

اس وقت ایمان کا وزن 500 کلوگرام سے بڑھ چکا تھا۔ اور وہ کم و بیش 25 سال سے اپنے گھر کے کمرے سے باہر نہیں نکل سکیں تھیں۔

ایمان احمد عبدلعاطی

ایمان کی فیملی نے بھارتی اسپتال کی پیش کش قبول کرتے ہوئے ویزے کے لیے درخواست دی۔ جسے بھارتی قونصلیٹ نے مسترد کر دیا۔ جس کے بعد سیفی اسپتال کے ایک سرجن نے اپنی ایک ٹویٹ میں بھارتی وزیر خارجہ سے اپیل کی کہ ایمان کو علاج کی غرض سے آنے کی اجازت دی جائے۔ جس پر انہیں ویزہ جاری کر دیا گیا۔

لیکن ویزہ ملنے کے کئی ماہ بعد تک بھی ممبئی نہ جاسکیں کیونکہ ان کے وزن اور جسامت کے پیش نظر کوئی فضائی کمپنی انہیں لے جانے کے لیے تیار نہیں تھی۔ انہیں سوار کرانے کے لیےطیارے میں خصوصی تبدیلیوں اورانتظامات کی ضرورت تھی۔ تاہم ایک فضائی کمپنی نے انہیں یہ سہولت فراہم کر دی جس کے بعد وہ مئی میں ممبئی پہنچ گئیں۔

فروری میں شائع ہونے والی خبروں میں بتایا گیا ہے کہ انہیں اپنے گھر کے کمرے سے باہر نکالنے کے لیے ایک دیوار گرانا پڑی، کیونکہ انہیں دروازے سے باہر نہیں نکالا جا سکتا تھا۔

ممبئی کے سیفی اسپتال کی ڈاکٹروں کی ایک ٹیم نے وزن وزن گھٹانے کے لیے ان کے معدے کا آپریشن کر کے اس کا سائز چھوٹا کیا اور انہیں خصوصي غذاؤں پر رکھا۔

ایمان احمد عبدالعاطی

جب مئی میں انہیں ابوظہبی کے برجیل اسپتال منتقل کیا گیا تو اس وقت ایمان کا وزن کم ہو کر 176 کلو گرام ہو چکا تھا۔ جس کے بعد انہیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے اور اپنا چھوٹا موٹا کام خود کرنے کے قابل بنانے کے لیے تھراپی کی ضرورت تھی۔

ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ وہ بچپن سے ہی ایک ایسے مرض میں مبتلا تھیں جس میں جسم سے غیر ضروری پانی کا اخراج کم ہو جاتا ہے اور وہ جسم میں ہی جمع ہونا شروع ہو جاتا تھا۔ جس کے نتیجے میں جسم پھولنا اور وزن بڑھنے لگتا ہے۔

میڈیا نے اسپتال ذرائع کےحوالے سے بتایا کہ ایمان کے علاج پر تین کروڑ روپے خرچ ہوئے جس میں 65 لاکھ روپے عطیات کے طور پر حاصل ہوئے۔

أبو ظہبی کے برجیل اسپتال میں ڈاکٹر ایمان کی صحت یابی کی رفتار سے مطمئن تھے۔ وہاں انہوں نے وہیل چیئر پر بیٹھنا شروع کر دیا تھا اور اپنے ہاتھ سے کھانے بھی لگیں تھیں ۔انہوں نے 9 ستمبر کو اپنے خاندان اور اسپتال کے عملے کے ساتھ اپنی 37 ویں سالگرہ بھی منائی۔

برجیل اسپتال کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ علاج کے دوران ایمان کے دل اور گردوں میں پیچیدگیاں پیدا ہوگئی تھیں جس پر قابو پانے کی ہرممکن کوششیں کی گئیں لیکن وہ جانبر نہ ہو سکیں اور پیر کے صبح ان کا انتقال ہو گیا۔

ایمان یہ خواب دیکھا کرتی تھی کہ وہ ایک روز اپنے قدموں سمندر کے ساحل پر چل سکے گی۔ لیکن ان کا یہ خواب بھی ان کے ساتھ منوں مٹی کے نیچے دفن ہو گیا ہے۔