نیویارک اور اس کے مضافات کو کسی بھی دہشت گردی سے بچانے کے لیے لاکھوں ڈالر سے نصب کیے جانے والے آلات اور نگرانی اور سیکیورٹی کے سینکڑوں اہل کار جو کام نہ کرسکے وہ اس شہر کے چوروں نے کر دکھایا۔
نیویارک کے شہری اور پولیس کا محکمہ شہر کو بڑی تباہی سے بچانے والے ان چوروں کا احسان مند ہے اور نہ صرف سماجی رابطوں کی ویب سائٹس، اخباروں اور ٹیلی وژن کے پروگراموں میں ان کا ذکر ہو رہا ہے بلکہ ان کی تعریف بھی کی جارہی ہے۔
اس کہانی کی ابتدا 17 ستمبر کی شام نیویارک کے علاقے چیلسی کی 23 ویں سڑیٹ پر بم دھماکے سے ہوئی جس میں 29 افراد معمولی زخمی ہوئے تھے اور انہیں مرہم پٹی کے بعد اسپتال سے فارغ کر دیا گیا تھا۔
دھماکے کے مقام سے چار بلاک کے فاصلے پر پولیس کو 27 ویں سڑیٹ کے ایک کوڑے دان میں ایک اور گھریلو ساختہ بم ملا ۔ یہ ایک پریشر ککر تھا جس میں دھماکہ خیز مواد بھر کر اسے ایک سیل فون سے جوڑا گیا تھا ۔ مگر یہ دھماکہ نہیں ہو سکا کیونکہ بارود اور فون کا رابطہ ٹوٹ گیا تھا۔
بارود اور فون کا کنکشن کاٹنے میں ان دو نامعلوم چوروں کا ہاتھ ہے جنہیں پولیس بڑی سرگرمی سے تلاش کررہی ہے، فغان نژاد ملزم احمد راہی کے خلاف مقدمے میں گواہی کے لیے۔
پھٹ نہ سکنے والے بم کو ایک پہیوں والے سوٹ کیس ڈال کراس سٹرک پر نصب کیا گیا تھا ، پویس کی کہنا ہے کہ بم پھٹنے کی صورت میں بڑا نقصان ہوسکتا تھا۔
اسی صبح ریاست نیوجرسی میں نیویارک کے ایک مضافاتی علاقے سی سائیڈ پارک میں ایک ایسے راستے پر پائپ بم کا دھماکہ ہوا جہاں سے میراتھن ریس کے شرکاء کو گذرنا تھا۔ فوجیوں کے لیے چندہ جمع کرنے کی غرق سے منعقد کی جانے والی اس دوڑ کےلیے 5 ہزار سے زیادہ لوگوں نے اپنا اندراج کرایا تھا۔ بم تو پھٹا مگر ریس کے وقت میں تبدیلی سے کوئی نقصان نہیں ہوا۔ پویس کا کہنا ہے اس پائپ بم کی کڑیا ں بھی احمد راحمی سے جا ملتی ہیں جس نے ہفتے کی شام چیلسی میں دو پریشر ککر بم نصب کیے تھے۔
حکام کا کہنا ہے کہ دو خوش لباس نوجوان چوروں کی وہاں سے گذرتے ہوئے ایک پہیوں والے ایک لاوراث سوٹ کیس پر نظر پڑی ۔ انہوں نے اسے اٹھایا اور کوئی قیمتی چیز ملنے کے لالچ میں کھولا، مگر وہاں پریشر ککر ددیکھ کر اتنے مایوس ہوئے کہ اسے ایک قریبی کوڑے دان میں پھینکا دیا اور سوٹ کیس لے کر چلے گئے۔
اس عمل کے دوران بم اور اس پر نصب سیل فون کی تار الگ ہوگئی ، جس سے وہ تو نہیں پھٹ سکا لیکن سیل سے احمد راحمی تک پہنچنے کی راہ ہموار ہوگئی ۔اگلے ہی چند گھنٹوں میں پولیس کو نہ صرف یہ معلوم ہوچکا تھاکہ بم نصب کرنے والا کون ہے بلکہ اس کے پاس راحمی کی تصویر اور دیگر کوائف بھی موجود تھے جو انہیں فون کے ڈیٹا بیس سے ملے تھے۔
اگلی صبح نیویارک کے اکثر شہریوں کی آنکھ پولیس کی جانب سے بھیجے جانے والے ایک ہنگامی ٹیکسٹ میسج سے کھلی، جس میں راحمی کی تصویر کے ساتھ بتایا گیا تھا کہ وہ ایک خطرناک شخص ہے اور وہ جہاں کہیں بھی دکھائی دے ، پولیس کو فوراً اطلاع دی جائے۔ اور پھر چند ہی گھنٹوں کے بعد اسے گرفتار کر لیا گیا۔
نیویارک کے محکمہ پویس نے اپنی ویب سائٹ پر نیویارک کو کسی ممکنہ بڑے نقصان سے بچانے والے دو خوش لباس چوروں کی تصویر شائع کی ہےجس کی کوالٹی زیادہ اچھی نہیں ہے۔
نیویارک پولیس کے سراغ رسانی کے ادارے کے سربراہ رابرٹ بوائس نے میڈیا کو بتایا کہ وہ دونوں شریف آدمی لگتے تھے اور انہوں نے محض سوٹ کیس لے جانے پر اکتفا کیا۔ اور جب تک وہ مل نہیں جاتے، یہ کہنا مشکل ہے کہ انہوں نے سیل فون کی تار خود الگ کی تھی یا وہ حادثاتي طور پر الگ ہوگئی تھی۔
مین ہیٹن میں بم پھٹنے کے اگلے دن اتوار کی رات دو افراد کو نیویارک کے قریب واقع ریاست نیوجرسی کے شہر الزبتھ میں ریلوے اسٹیشن پر ایک کوڑے دان کے اوپر ایک بیگ پیک رکھا ہوا دکھائی دیا۔ الزبتھ کے میئر کرسٹین بالویگ نے ان دونوں کے بارے میں میڈیا کو بتایا کہ وہ بے گھر لوگ تھے اور لا وارث بیگ دیکھ کر انہوں نے شاید اس ارادے سے اٹھا لیا کہ اس میں کوئی قیمتی چیز ہوگی۔ لیکن جب انہوں نے اسے کھولا تو اس میں پانچ پائپ بم پڑے تھے۔
انہوں نے خوف زدہ ہوکر بیگ کو سڑک پر پھینکا اور پولیس کو اطلاع دی جس نے وہاں پہنچ کر روبوٹ کی مدد سے انہیں ناکارہ بنا دیا۔ اس عمل کے دوران ایک بم پھٹ گیا۔
میئر کا کہنا تھا کہ حقیقت یہ ہے قیمتی چیزوں کی خاطر بیگ اٹھانے والے چوروں نے سینکڑوں لوگوں کی جانیں بچائیں۔