بولان کے ڈپٹی کمشنر نے بتایا کہ جرائم پیشہ عناصر کا یہ گروپ سندھ اور بلوچستان میں قتل، اغوا اور دیگر وارداتوں میں ملوث تھا۔
کوئٹہ —
پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں اتوار کو سکیورٹی فورسز نے کارروائی کرتے ہوئے قتل، اغوا برائے تاوان اور دیگر جرائم میں ملوث گروہ کے 13 ارکان کو ہلاک کردیا جب کہ دو اہلکار بھی اس میں مارے گئے۔
حکام کے مطابق بولان کے علاقے میں ہونے والے اس کارروائی میں جرائم پیشہ عناصر کا ایک سرکردہ فرد بھی مارا گیا جب کہ ہلاک ہونے والے دیگر افراد میں سندھ اور بلوچستان کو مطلوب ملزمان بھی شامل ہیں۔
آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے چھوٹے لیکن رقبے کے اعتبار سے سب سے بڑے اس صوبے میں حالیہ برسوں کے دوران امن و امان کی صورتحال میں مسلسل خرابی دیکھنے میں آئی ہے اور ساتھ ہی ساتھ ہدف بنا کر قتل کرنے، دہشت گردانہ حملوں اور اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں اضافہ ہوا۔
ایسے شر پسند عناصر سے نمٹنے کے لیے حال ہی میں پولیس کی ایک اسپیشل فورس بھی صوبے میں تعینات کی گئی ہے جو دیگر اہلکاروں کے ہمراہ جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائیاں کررہی ہے۔
ضلع بولان کے ڈپٹی کمشنر عبدالوحید شاہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اتوار کو ہونے والی اس کارروائی کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ سکیورٹی فورسز کافی عرصے سے طاق میں تھیں۔
’’ پلاننگ کے ساتھ یہ کارروائی کی گئی۔ ان لوگوں نے علاقے کو یرغمال بنا رکھا تھا، تین گھنٹوں تک ان لوگوں سے فائرنگ کا تبادلہ جاری رہا جس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ یہ کتنی تیاری کے ساتھ اپنی کمین گاہوں میں بیٹھے تھے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ مرنے والوں میں کالعدم بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کے لوگ بھی شامل ہیں یا نہیں لیکن ان کے بقول یہ لوگ اغوا برائے تاوان کی متعدد وارداتوں میں ملوث تھے۔
عبدالوحید شاہ نے بتایا کہ یہ لوگ بھاری مقدار میں اسلحہ کے ساتھ اپنی کمین گاہوں میں موجود تھے جنہیں تباہ کردیا گیا اور مزید تفصیل تحقیقات کے بعد سامنے آسکے گی۔
حالیہ مہینوں میں سوئٹزرلینڈ کے ایک جوڑے، بلوچستان کے دو ججز ، دیگر اہم سرکاری شخصیات سمیت دو قازق سیاح خواتین کو رواں سال کے دوران بلوچستان کے مختلف علاقوں سے اغوا کیا گیا ان میں سے کچھ کو اپنی رہائی کے بدلے بھاری رقوم ادا کرنا پڑیں جب کہ اب تک متعدد مغوی بازیاب نہیں کرایا جاسکا ہے۔
حکام کے مطابق بولان کے علاقے میں ہونے والے اس کارروائی میں جرائم پیشہ عناصر کا ایک سرکردہ فرد بھی مارا گیا جب کہ ہلاک ہونے والے دیگر افراد میں سندھ اور بلوچستان کو مطلوب ملزمان بھی شامل ہیں۔
آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے چھوٹے لیکن رقبے کے اعتبار سے سب سے بڑے اس صوبے میں حالیہ برسوں کے دوران امن و امان کی صورتحال میں مسلسل خرابی دیکھنے میں آئی ہے اور ساتھ ہی ساتھ ہدف بنا کر قتل کرنے، دہشت گردانہ حملوں اور اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں اضافہ ہوا۔
ایسے شر پسند عناصر سے نمٹنے کے لیے حال ہی میں پولیس کی ایک اسپیشل فورس بھی صوبے میں تعینات کی گئی ہے جو دیگر اہلکاروں کے ہمراہ جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائیاں کررہی ہے۔
ضلع بولان کے ڈپٹی کمشنر عبدالوحید شاہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اتوار کو ہونے والی اس کارروائی کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ سکیورٹی فورسز کافی عرصے سے طاق میں تھیں۔
’’ پلاننگ کے ساتھ یہ کارروائی کی گئی۔ ان لوگوں نے علاقے کو یرغمال بنا رکھا تھا، تین گھنٹوں تک ان لوگوں سے فائرنگ کا تبادلہ جاری رہا جس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ یہ کتنی تیاری کے ساتھ اپنی کمین گاہوں میں بیٹھے تھے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ مرنے والوں میں کالعدم بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کے لوگ بھی شامل ہیں یا نہیں لیکن ان کے بقول یہ لوگ اغوا برائے تاوان کی متعدد وارداتوں میں ملوث تھے۔
عبدالوحید شاہ نے بتایا کہ یہ لوگ بھاری مقدار میں اسلحہ کے ساتھ اپنی کمین گاہوں میں موجود تھے جنہیں تباہ کردیا گیا اور مزید تفصیل تحقیقات کے بعد سامنے آسکے گی۔
حالیہ مہینوں میں سوئٹزرلینڈ کے ایک جوڑے، بلوچستان کے دو ججز ، دیگر اہم سرکاری شخصیات سمیت دو قازق سیاح خواتین کو رواں سال کے دوران بلوچستان کے مختلف علاقوں سے اغوا کیا گیا ان میں سے کچھ کو اپنی رہائی کے بدلے بھاری رقوم ادا کرنا پڑیں جب کہ اب تک متعدد مغوی بازیاب نہیں کرایا جاسکا ہے۔