رسائی کے لنکس

لکڑی کا زمانہ


ان دنوں جب لوگوں کے گھروں میں چولہا نہیں جلتا تو وہ سڑکوں پر ٹائر جلانے لگتے ہیں۔ ٹائر پر گاڑی تو چل سکتی ہے لیکن کھانا نہیں پک سکتا۔ آج کے دور میں کھانا پکانے کے لیے گیس ،بجلی یا تیل چاہیے۔ مگر ہمارے پچپن میں ایسا نہیں تھا۔

بچپن میں ہمارے گھر میں لکڑی جلتی تھی۔ گلی کی نکڑ پر ایک ٹال تھا جسے ابا ہر پہلی کو پیسے دے آتے تھے اورٹال والا ہمارے صحن کے ایک کونے میں پانچ من لکڑی ڈال جاتاتھا۔ لکڑی کا گھر کے فرد کی طرح خیال رکھاجاتا تھا۔آسمان پر بادل دیکھتے ہی اس پر ترپال ڈال دی جاتی تھی۔ ان دنوں لوگ سیاست اور مہنگائی کی باتیں نہیں کرتے تھےبلکہ گفتگو کا موضوع یہ ہوتاتھا کہ کس ٹال پر سوکھی لکڑی ملتی ہے۔

گیلی لکڑی کی سزا پورے گھرکوبھگتنی پڑتی تھی۔ دھواں باورچی خانے سے نکل کر برآمدے سے ہوتا ہوا سارے کمروں میں پھیل جاتا تھا اور اس کی جلن اور چبھن سے آنکھوں سے پانی بہنے لگتا تھا۔ اس زمانے میں سب سے مشکل کام صبح کے وقت چولہا جلانے کا تھا۔ چولہا جلانا ایک آرٹ تھا۔ بعض اوقات آگ جلانے کے لیے مٹی کا تیل کی بھی ضرورت پڑجاتی تھی۔ صبح آگ جلانے کے بعدرات کے کھانے تک چولہے کو روشن رکھاجاتاتھا۔ جب کچھ پک نہیں رہاہوتاتھا تو سلگتی لکڑیوں کو راکھ سے ڈھانپ آگ کو محفوظ کردیا جاتاتھا۔

اس زمانے میں ہر گھر کےباروچی خانے کی دیواریں دھوئیں سے سیاہ ہوتی تھیں ۔ دھوئیں کی جلن اور کالک سے بچنے کے لیے اکثر گھروں میں صحن کے ایک کونے میں اوپن ایئر چولہا ہوتاتھا ۔بارش اور شدید سردی کے علاوہ کھانا پکارنے کا زیادہ تر کام صحن میں ہی ہوتاتھا۔

پھر انہی دنوں ہمارے ٹال والے نے لکڑی کا کوئلہ بھی رکھنا شروع کردیا اور ہم بھی کوئلے کی ایک انگیٹھی لے آئے۔ کوئلے پر کھانا پکانا نسبتاً آسان اور صاف ستھرا تھا مگر وہ لکڑی سے دگنا مہنگا تھا۔ چنانچہ ہمارے ہاں یہ عیاشی مہینے کے شروع یا بارش کے دنوں میں ہوتی تھی۔ اسی دوران کسی نے لکڑی کے برادے کی انگیٹھی ایجاد کرڈالی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ہمارے محلے کے تقریباً ہر گھر میں برادے کی انگیٹھیاں آگئیں۔ لکڑی کے برادے سے بھری بوریاں آرا مشینوں سے سستے داموں مل جاتی تھیں۔ برادے کی انگیٹھی سلگانا آسان تھا اور جب آگ کی ضرورت نہیں ہوتی تھی ، تو اسےڈھانپ دیاجاتاتھا، جس سے آگ محفوظ ہوجاتی تھی اور ڈھکن اٹھاتے ہی چولہا دوبارہ روشن ہوجاتا تھا۔

ہمارے گھر میں برادے کے بعد مٹی کے تیل کے اسٹوو کا دور آیا۔ اس کی آنچ تو تیز تھی، مگر تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد اس میں ہوا بھرنی پڑتی تھی۔ کھانا تو جلد پک جاتاتھا مگر اسٹوو اتنا زیادہ شور کرتا تھا کہ سرمیں درد ہوجاتاتھا۔ چنانچہ ہمارے ہاں اسٹود کااستعمال محدود ہی رہا اور اسے کبھی کبھار ایک اضافی چولہے کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا۔

یورپ کے صنعتی انقلاب کی طرح ہمارے باروچی خانو ں میں ایک بڑا انقلاب مٹی کے تیل کے چولہوں کے ذریعے آیا۔ یہ منفرد ٹیکنالوجی کے چولہے تھے جن میں لالٹین جیسی بتیاں جلتی تھیں۔ ہمارے گھر میں آنے والا پہلا چولہا 16 بتیوں کا تھا اس کے بعد ہم نے 20 اور پھر 24 بتیوں کے چولہے بھی خریدے۔ بتیوں کے چولہے میں خوبی یہ تھی کہ انہیں جلانا آسان تھا۔ ان کی آنچ زیادہ تھی۔ دھواں نہیں تھا۔ زیادہ دیکھ بھال کی ضرورت نہیں تھی۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ مٹی کے تیل کی قیمت کم تھی اوراس پر کھانا پکانا سستا پڑتا تھا۔ اس زمانے کے حکمران مٹی کے تیل پر سبسڈی دیتے تھے تاکہ غریب اور متوسط طبقے کا چولہا جلتارہے۔

جب میں نے ملازمت شروع کی تو ہمارے شہر میں سلنڈروں میں گیس فراہم کرنے والی ایک کمپنی نے اپنا دفتر کھولا۔ میں نےبھی بڑی سفارشوں کے ساتھ پندرہ سو میں ایک کنکشن خریدا اور ہمارے گھر میں گیس کا چولہا آگیا۔ لیکن سلنڈر آسانی سے نہیں ملتا تھا۔ کبھی کبھی تو مہینوں کا وقفہ آجاتا تھا۔ چنانچہ ہمارے ہاں گیس اور تیل کے چولہے ایک ساتھ استعمال میں رہے۔

چند سال کے بعد ہمارے شہر میں گیس کی پائپ لائن بچھ گئی۔ میں نے ایک بینک سے قرض لے کر رشوت دی اور اپنے گھر میں گیس لگوائی۔ جب ہم امریکہ آرہے تھے تو ہمارے کچن میں چار چولہوں والا رینج کام کررہا تھا۔ آتے ہوئے میں نے گھر اپنے بھائی کے حوالے کیا تو اس نے بڑے اعتماد سے کہا تھا کہ کچھ سال بعد جب آپ یہاں آئیں گے تو کچن میں شمسی توانائی یا کسی اور ٹیکنالوجی کا چولہا جل رہا ہو گا۔ یہ وہ دور تھا جب پاکستان تیزی سے معاشی ترقی کررہا تھا اور نت نئی ٹیکنالوجی متعارف ہورہی تھی۔

مگر پھر کچھ ہی عرصے میں سب کچھ بدلنے لگا اور جب بھی فون پر میری بھائی سے بات ہوتی تو وہ پریشانی سے کہتا کہ گیس کا پریشر بہت کم ہے، یا وہ آ ہی نہیں رہی، کھانا پکانا مشکل ہوگیا ہے۔ پھر ایک روز اس نے بتایا کہ گھر کے پرانے اسٹور سے تیل کا چولہا مل گیا ہے، مگر اس کی بتیاں نہیں مل رہیں۔ پھر کسی طرح وہ اسے جلالنے میں کامیاب ہوگیا لیکن مسئلہ پھر بھی موجود رہا۔ اس کا کہنا تھا کہ تیل بہت مہنگا ہے اور آسانی سے ملتا بھی نہیں ہے۔

پھر پچھلے مہینے بھائی نے بتایا کہ اسے کوئلے کی انگیٹھی مل گئی ہے اور وہ شہر سے کئی میل باہر ایک قصبے سے کوئلے کی ایک بوری بھی خرید لایا ہے۔ مگر اس کا کہنا تھا کہ مہنگا کوئلہ خریدنے اور اتنی دور سے لانے کے لیے اس کے پاس استعطاعت ہے اور نہ ہی وقت۔

پچھلے ہفتے جب بھائی سے بات ہوئی تو وہ بہت خوش تھا۔ کہہ رہاتھا کہ پکانے کا مسئلہ حل ہوگیا ہے۔ ہماری کالونی کے ایک خالی پلاٹ پر لکڑی کا ٹال کھل گیا ہے۔ میں وہاں ایک من سوکھی لکڑی لے آیا ہوں اور صحن کے کونے میں سیمنٹ کا پختہ چولہا بھی بنوالیا ہے۔ پھر وہ افسردگی سے بولا کہ وقت ہمیں پیچھے لے جا رہا ہے۔

میں چپ رہا اور یہ نہ کہہ سکا کہ وقت تو ہمیشہ آگے بڑھتا ہے۔ اس کے ساتھ چلنے یا پیچھے جانے کا فیصلہ ہمارا اپنا ہوتا ہے۔

  • 16x9 Image

    جمیل اختر

    جمیل اختر وائس آف امریکہ سے گزشتہ دو دہائیوں سے وابستہ ہیں۔ وہ وی او اے اردو ویب پر شائع ہونے والی تحریروں کے مدیر بھی ہیں۔ وہ سائینس، طب، امریکہ میں زندگی کے سماجی اور معاشرتی پہلووں اور عمومی دلچسپی کے موضوعات پر دلچسپ اور عام فہم مضامین تحریر کرتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG