بھارتی کنٹرول کے کشمیر میں ایک فوجی مرکز پر عسکریت پسندوں کےحملے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان سندھ طاس کمشن کا معطل کیا جانے والا اجلاس مارچ کی 20 اور 21 تاریخ کو لاہور میں ہوگا۔
یہ اجلاس ایک ایسے موقع پر ہو رہا ہے جب بھارت متنازع کشمیر میں 15 ارب ڈالر کی لاگت کے پن بجلی کے منصوبوں پر تیزی سے کام کررہا ہے اور وفاقی اور ریاستی عہدے داروں کو کہنا ہے کہ وہ اس سلسلے میں اسلام آباد کے سخت الفاظ کو نظر انداز کر رہے ہیں۔
اسلام آباد کا کہنا ہےکہ پاکستان کی طرف بہنے والے دریاؤں پر بجلی پیدا کرنے کے لیے ڈیموں کی تعمیر سے اس کے لیے پانی کا بحران پیدا ہو سکتا ہے۔
دونوں ملکوں نے اپنے آبی وسائل کی شراکت داری کے لیے ورلڈ بینک کی ضمانت کے ساتھ 1960 میں سندھ طاس معاہدےپر دستخط کیے تھے۔
پچھلے سال بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا تھا کہ پاکستان کے ساتھ پانی کی شراکت داری اس چیز سے مشروط ہے کہ اسلام آباد بھارت مخالف دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرے۔
پاکستان بھارتی کشمیر میں پن بجلی کے کچھ منصوبوں پر یہ کہتے ہوئے اعتراض کرتا ہے کہ اس سے دریائے سندھ اور اس سے نکلنے والی شاخوں سے متعلق سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی ہوتی ہے جس پر اس کی 80 فی صد زراعت کا انحصار ہے۔
بھارتی منصوبوں میں سب سے بڑا پراجیکٹ 1856 میگا واٹ کا سوال کوٹ پلانٹ ہے ، جسے مکمل ہونے میں کئی برس لگیں گے۔ لیکن اس پراجیکٹ کی منظوری ان دو ہمسایہ جوہری ملکوں کے درمیان شدید تنازع کا سبب بن سکتی ہے ، جن کے درمیان تعلقات پہلے ہی اپنی کم ترین سطح پر ہیں۔
بھارت اپنے کنٹرول کے کشمیر میں شورش کاالزام پاکستان پر لگاتا ہے جب کہ پاکستان اس سے انکار کرتے ہوئے نئی دہلی پر زور دیتا ہے کہ وہ اس پرانے تنازع کے حل کے لیے اس کے ساتھ مذاکرات کرے۔
پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے کہا ہے کہ وہ بھارت کے تجویز کردہ پراجیکٹس پر پانی اور بجلی کی وزارت سے بات کریں گے کیونکہ یہ ایک تکینکی معاملہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ انڈس کمشن کی ایک باضابطہ میٹنگ کے لیے بھارتی وفد اس مہینے کے آخر میں لاہور آ رہا ہے' جب کہ سرحدی امور سے متعلق مذاکرات فی الحال التوا میں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ آخرکار بھارت کو یہ احساس ہو گیا ہے کہ دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاؤں کے تنازعات کو سندھ طاس معاہدے کے طریقہ کار کے مطابق ہی حل کیا جا سکتا ہے۔
بھارت کی پانی کے وسائل کی وزارت کے دو اور بجلی کے مرکزی ادارے کے ایک عہدے دار نے کہا ہے کہ بھارتی کشمیر میں پن بجلی کے چھ منصوبوں کے قابل عمل ہونے سے متعلق تمام ٹیسٹ مکمل ہوچکے ہیں اور ماہرین پچھلے تین مہینوں کے دوران ان کی منظوری دے چکے ہیں۔
یہ منصوبے دریائے چناب اور دریائے سندھ پر ہیں جن کی تکمیل سے جموں و کشمیر میں پن بجلی کی پیداوار تین گنا ہو جائے گی۔
بھارتی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ ایک روز آپ دیکھیں گے کہ یہ تمام پراجیکٹ منظور ہو گئے ہیں ۔ ان پر یقینی طور پر پاکستان کو اعتراض ہو گا۔
آب وہو ا کی تبدیلیوں اور کاشت کاری کے فرسودہ طریقوں اور آبادی میں اضافے کے باعث پاکستان میں پانی کی قلت بڑھ رہی ہے۔
سن 2011 میں امریکی سینیٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی میں پیش کی جانے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ان منصوبوں کی مدد سے نئی دہلی پاکستان کے پانی کو کنٹرول کر سکتا ہے۔
جب کہ بھارت کا کہنا ہے کہ اس کے منصوبے دریائے کے بہاؤ پر کام کرتے ہیں اور وہ پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے بڑے ڈیم نہیں بنا رہا۔
ماحولیات کے ماہرین نے یہ سوال اٹھایا کہ آیا بھارت نے ایک ایسے علاقے کے لیے جوزلزلوں کے حوالے سے بہت حساس ہے، تمام حفاظتی پہلو اپنے پیش نظر رکھے ہیں۔
وزیر اعظم مودی نے پچھلے سال بھارتی کشمیر کے ایک فوجی مرکز پر عسکریت پسندوں کے حملے کے بعد عہدے داروں کے ایک اجلاس کے دوران سندھ طاس منصوبے کے متعلق یہ تبصرہ کیا تھا کہ خون اور پانی ایک ساتھ نہیں بہہ سکتے۔
کیا اس پس منظر میں لاہور میں ہونے والے سندھ طاس کمشن کے اجلاس کا کوئی نتیجہ نکل سکے گا؟