واشنگٹن —
عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا ہے کہ دنیا بھر میں نفسیاتی دبائو اور ذہنی امراض کا شکار افراد میں اضافہ ہورہا ہے اور ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا کے 35 کروڑ سے زائد افراد ڈپریشن کا شکار ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے ذہنی بیماریوں سے متعلق شعبے کے سربراہ ڈاکٹر شیکھر سکسینا کے مطابق دنیا میں 35 کروڑ سے زائد ڈپریشن کا شکار ان لوگوں میں ایسے افراد شامل نہیں جن پر کبھی کبھار اداسی یا یاسیت کا غلبہ ہوتا ہے۔
ان کے بقول، "اس تعداد میں وہ لوگ شامل ہیں جن پر اداسی دو ہفتوں یا اس سے بھی زائد عرصے تک طاری رہتی ہے اور اس سے ان کا روزمرہ کا معمول بھی متاثر ہوتا ہے"۔
ڈاکٹر سکسینا کہتے ہیں کہ 'ڈپریشن' کو محض ایک جذباتی کیفیت نہیں بلکہ باقاعدہ بیماری سمجھا جانا چاہیے۔ان کے مطابق 'ڈپریشن' کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں اور ذاتی معاملات اور حالات کا اثر 'ڈپریشن' کی ایک اہم وجہ ہوتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر کسی بھی شخص سے اس کی ذہنی و جذباتی کیفیت کے بارے میں درست سوالات پوچھ کے یہ تعین کرسکتے ہیں کہ آیا وہ 'ڈپریشن' کا شکار ہے یا نہیں۔ ان کے بقول ان سوالات کے ذریعے مریض سےاداسی کا دورانیہ، اپنی ذات کے بارے میں اس کی رائے اور زندگی کے بے معنویت اور خودکشی جیسے خیالات کے آنے کے بارے میں جاننا چاہیے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا میں ہر سال لگ بھگ 10 لاکھ افراد خودکشی کرتے ہیں جن کی ایک بہت بڑی تعداد 'ڈپریشن' کا شکار ہوتی ہے۔ عالمی ادارے کے مطابق ہر پانچ میں سے ایک حاملہ خاتون بھی زچگی سے قبل 'ڈپریشن' کا سامنا کرتی ہے۔
عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ 'ڈپریشن' کا مرض دنیا کے تمام خطوں میں موجود ہے اور ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک اس سے یکساں متاثر ہیں۔
ڈاکٹر سکسینا کہتے ہیں کہ 'ڈپریشن' کا علاج انتہائی سادہ اور آسان ہے اور کم قیمت ادویات اور تھراپی کے ذریعے اس سے بآسانی چھٹکارا پایا جاسکتا ہے۔ لیکن ان کے بقول اصل مسئلہ اس کیفیت کو بیماری سمجھنے کا ہے کیوں کہ لوگوں کی اکثریت 'ڈپریشن' کو عارضی کیفیت سمجھ کر اسے اہمیت نہیں دیتی۔
عالمی ادارہ صحت کے ذہنی بیماریوں سے متعلق شعبے کے سربراہ ڈاکٹر شیکھر سکسینا کے مطابق دنیا میں 35 کروڑ سے زائد ڈپریشن کا شکار ان لوگوں میں ایسے افراد شامل نہیں جن پر کبھی کبھار اداسی یا یاسیت کا غلبہ ہوتا ہے۔
ان کے بقول، "اس تعداد میں وہ لوگ شامل ہیں جن پر اداسی دو ہفتوں یا اس سے بھی زائد عرصے تک طاری رہتی ہے اور اس سے ان کا روزمرہ کا معمول بھی متاثر ہوتا ہے"۔
ڈاکٹر سکسینا کہتے ہیں کہ 'ڈپریشن' کو محض ایک جذباتی کیفیت نہیں بلکہ باقاعدہ بیماری سمجھا جانا چاہیے۔ان کے مطابق 'ڈپریشن' کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں اور ذاتی معاملات اور حالات کا اثر 'ڈپریشن' کی ایک اہم وجہ ہوتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر کسی بھی شخص سے اس کی ذہنی و جذباتی کیفیت کے بارے میں درست سوالات پوچھ کے یہ تعین کرسکتے ہیں کہ آیا وہ 'ڈپریشن' کا شکار ہے یا نہیں۔ ان کے بقول ان سوالات کے ذریعے مریض سےاداسی کا دورانیہ، اپنی ذات کے بارے میں اس کی رائے اور زندگی کے بے معنویت اور خودکشی جیسے خیالات کے آنے کے بارے میں جاننا چاہیے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا میں ہر سال لگ بھگ 10 لاکھ افراد خودکشی کرتے ہیں جن کی ایک بہت بڑی تعداد 'ڈپریشن' کا شکار ہوتی ہے۔ عالمی ادارے کے مطابق ہر پانچ میں سے ایک حاملہ خاتون بھی زچگی سے قبل 'ڈپریشن' کا سامنا کرتی ہے۔
عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ 'ڈپریشن' کا مرض دنیا کے تمام خطوں میں موجود ہے اور ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک اس سے یکساں متاثر ہیں۔
ڈاکٹر سکسینا کہتے ہیں کہ 'ڈپریشن' کا علاج انتہائی سادہ اور آسان ہے اور کم قیمت ادویات اور تھراپی کے ذریعے اس سے بآسانی چھٹکارا پایا جاسکتا ہے۔ لیکن ان کے بقول اصل مسئلہ اس کیفیت کو بیماری سمجھنے کا ہے کیوں کہ لوگوں کی اکثریت 'ڈپریشن' کو عارضی کیفیت سمجھ کر اسے اہمیت نہیں دیتی۔