اگر آپ سرکے گرتے بالوں سے پریشان ہیں تو ہمارے پاس آپ کے لیے ایک اچھی خبر ہے کہ سائنس دان ایک ایسے علاج کے قریب پہنچ گئے ہیں جس سے گنجے پن پر مکمل طور پر قابوپایا جاسکے گا۔ کیونکہ انہوں نے اس مخصوص پروٹین کا کھوج لگالیا ہے جس کی وجہ سے بال کمزور ہوکر رفتہ رفتہ گرجاتے ہیں۔
ماہرین کا کہناہے کہ جب یہ معلوم ہوجائے کہ مرض کا اصل سبب کیا ہے تو پھر اس کی دوا ڈھونڈنا آسان ہوجاتا ہے۔
مردوں کے سرکے بال عموماً 50 سال کی عمر میں گرنے شروع ہوجاتے ہیں۔ بال گرنے کا آغاز سر کے وسط سے ہوتا ہے اور پہلا خلاء اسی حصے میں نمودار ہوتا ہے، جسے اکثر لوگ اپنا ہیر اسٹائل بدل کر چھپا دیتے ہیں۔
بالوں کا گرنا اور گنج کا نمودار ہونا ، ظاہر ہے کسی کو اچھا نہیں لگتا،اور پھر فکر شروع ہوجاتی ہےدوبارہ بال اگانے کی۔ جس کے لیے مختلف ہیئر ٹانک ، تیل اور کریمیں استعمال کی جانے لگتی ہیں۔ لیکن یہ محاورہ کہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی، بالوں پر صادق آتا ہے اور سر کے وسط میں ابھرنے والا چھوٹا خلا ءتیزی سے اردگرد کے بالوں کو نگلنے لگتا ہے ۔ پھر جب گنج بڑھ جاتا ہے تو اسے ذہنی طور پر قبول کرنے کے بعد اس کی فکر چھوڑ دی جاتی ہے۔
لیکن پیشہ ورانہ ضرورتوں یا کسی دوسری وجہ سے اپنی شخصت کا خیال رکھنے والے افراد اپنی گنج کو وگ میں چھپا لیتے ہیں یا پھر بالوں کی پیوندکاری کروا لیتے ہیں۔
طبی ماہرین کا کہناہے کہ گنج کا مرحلہ مکمل ہونے میں 15 سے 25 سال لگتے اور اس کے بعد بال صرف کنپٹی اور سر کے پچھلے حصے میں باقی رہ جاتے ہیں اور ایک جھالر کی طرح دکھائی دیتے ہیں۔
سر کےپچھلے حصے کے بال سب سے زیادہ مضبوط ہوتے ہیں اور عموماً گنجے پن چھپانے کی پیوندکاری میں اسی حصے کے بال استعمال کیے جاتے ہیں۔ لیکن پیوندکاری کی بعض صورتوں میں نقلی بالوں کو بھی اصلی بالوں کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔
50 سال کی عمر کے لگ بھگ سرکےبالوں کا گرنا معمول کا ایک عمل ہے، لیکن اس کی رفتار کم یا زیادہ ہوسکتی ہے جس کا انحصار بہت سے عوامل پر ہوتا ہے۔لیکن بعض افراد کے بال عین جوانی میں ہی گرنا شروع ہوجاتے ہیں۔ جس کی وجہ عموما جینیاتی ہوتی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے عمر کے ساتھ گنجے پن کا نشانہ مرد بنتے ہیں اورخال خال ہی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی عورت بھی مردوں کی طرح گنجی ہوجائے۔ تاہم عمر کےساتھ ان کے بال بھی کمزور پڑسکتے ہیں اور چھدرے بھی ہوسکتے ہیں۔
مرد گنجے کیوں ہوجاتے ہیں؟ یہ پتا چلانے کے لیے یونیورسٹی آف پنسلوانیا کے سائنس دانوں کی ایک ٹیم نے پروفیسر جارج کوٹسارلیس کی قیادت میں تحقیق کی۔ اس سلسلے میں لیبارٹری میں چوہوں پر تجربات کے بعد انہوں نے 20 سے زیادہ ایسے مرد رضاکاروں کا انتخاب کیا جو گنجے پن کے عمل سے گذررہےتھے۔
انہیں معلوم ہوا کہ سر کے اس حصے میں ، جہاں سے بال غائب ہوچکے تھے، ایک مخصوص پروٹین پی جی ڈی ٹو کی سطح ، بالوں والے حصے سے تین گنا زیادہ تھی۔
مارکیٹ میں اس وقت کم و بیش 10 ایسی دوائیں موجود ہیں جوپی جی ڈی ٹو کو بننے سے روکنے میں مدد دے سکتی ہیں، یا اس کی رفتار سست کرسکتی ہیں۔
پروفیسر کوٹسارلیس کا کہناہے کہ پی جی ڈی ٹو پروٹین کی سطح معمول پر لانے کے مثبت نتائج نکلے اور بالوں کا گرنا رک گیا۔ لیکن اس عمل سے گرجانے والے بالوں کو واپس نہیں لایا جاسکتا۔
ان کا یہ بھی کہناتھا کہ بالوں کی افزائش میں اضافہ کرنے والی کئی دوائیں موجود ہیں، جنہیں پی جی ڈی ٹو پر قابوپانے والی دوا کے ساتھ استعمال کر کے بہتر نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
جریدے’ سائنس ٹرانسلیشنل میڈیسن‘ میں شائع ہونے والی اس رپورٹ میں پروفیسر جارج کوٹسارلیس کا کہناہے کہ ان کی ٹیم کی یہ دریافت مرودں میں گنجے پن کی مکمل روک تھام کی جانب ایک اہم اور بڑا قدم ہے ۔ گنجے پن کا سبب بننے والے پروٹین کی دریافت کے بعد اب اس کا علاج ڈھونڈنا آسان ہوگیا ہے ۔
ان کا کہناتھا کہ پہلے مرحلے میں کامیابی کے بعد اب ان کا اگلا قدم ایسے مرکبات کا کھوج لگانا ہے جو پروٹین پی جی ڈی ٹو کی سطح بڑھانے کا سبب بنتے ہیں۔ جس کے بعد گنجے پن پر مکمل طورپر قابوپانا اور نئے بال اگانا آسان ہوجائے گا۔